By: Reshman Yaseen
سوری کا لفظ بولنے اور لکھنے میں بہت چھوٹا مگر اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے کبھی کبھی یہ چھوٹا سا لفظ بڑا کمال کر جاتا ہے ۔
دوسروں کی غلطیوں وزیاتیوں پر درگزر کرنا اور انکو معاف کر دینا یہ ایک ایسی اخلاقی صفت ہے اس کے سبب دل میں کدورت (رنجش) نہیں رہتی دل صاف رہتا ہے اور انسانوں سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور باہمی زندگی میں ہمدردی اور محبت پیدا ہوتی ہے ۔اگر کسی سے غلطی ہوجائے اور وہ آپ سے معافی مانگے تو دیر نہ کریں اور اگر آپ سے غلطی ہوجائے تو اپ دیر نہ کریں بلکہ اس سے معافی مانگ کراپنےدل کو صاف کرلیں اور اسکے دل کو بھی اپنے لئے صاف کروالیں ، دل ہمارا گھر ہے اسکو اللہ نے پسند فرمایا ہے تو اسکو صاف ستھرا رکھیں جیسے ہم اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور صاف ستھرا دیکھنا چاہیتے ہیں۔
قرآن میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی غلطیوں کو درگزر فرما کر انہیں بخشش کی نوید دی ہے۔
اللہ سبحان تعالی فرماتے ہے
تو بےشک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑی قدرت والا ہے ۔( سورہ النساء # 149)
دو سامنے ہمارے پیارے نبی کا اسوہ حسنہ ہے ۔حضرت عائشیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں اپ نے کبھی اپنی ذاتی معاملہ میں اختیار ہونے کے باوجود کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا سواے اس کے جب کسی نے احکام الہی کی ہنسی اُڑای یا اسکی شدید مخالفت کی۔ہم نبی کریم کی سیرت پاک کو دیکھے تو ہمیں بیشمار واقعات ملتے ہیں جن میں ہم پڑھتے ہیں ۔
“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کی راہ میں بہت ستایا گیا۔ اعلان نبوت سے لے کر فتح مکہ تک، رحمت عالم کی ذات مقدس پر اتنے مصائب کے پہاڑ توڑے گئے کہ تاریخ میں اسکی مثال نہں ملتی ۔مگر نبی کریم نے صبر وتحمل سے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ شرافت و حسن سلوک ، عفودرگزر ، رحمت و شفقت کا وہ سلوک کیا جو چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔آپ پر پتھر برسائے گئے مگر آپ نے دعائیں دی وہ بوڑھی عورت جو
کچرا پھینکتی تھی بیمار ہوئ تو آپ نے اسکی تیمارداری کی ، فتح مکہ کے موقع پر آپ ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے حضرت سمیہ کی آ ہوں کا ، حضرت صیہب اور حضرت بلال کی چیخوں کا، کہتے آج کوئ ظالم نہیں بچے گا سب اپنے انجام کو پنہچے گے مگر آپ نے اس قوم پر نگاہ رحمت ڈالتے ہوئے فرمایا
“ آج کے دن تم سے کوئ مواخذہ نہیں جاؤ تم سب آذاد ہو”
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، میں اور نبی کریم کے ہمراہ چل رہا تھا اور اپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھدرے تھے ، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپکی گردن مبارک پر خراش آگئ ۔ وہ کہنے لگا اللہ تعالی کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسکی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے ، پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔( صیح بخاری حدیث # 3149)
ایسے سیرہ کے واقعات ہمیں اپنے نبی کی زندگی میں بہت پڑھنے کو ملے گے اور ہم پڑھتے بھی ہیں اور دوسروں کو سناتے بھی ہیں ۔سننے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل ہو جائےتو کتنا اچھا ہوگا اسکے لئے ہمیں مسلسل کوشش کرنی چاہئے۔
بحیثت انسان ہم سے غلطیاں ہوتی ہے اور جب تک یہ سانسیں چل رہی ہے باوجود کوشش کہ غلطی ہو جاتی ہے۔اب غلطی کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ سب ختم ہو گیا ایسا بالکل نہیں ہے جب آپ آگے بڑھکرمعافی( سوری )کہتے ہیں تو سامنے والے کو آپ ایک مثبت(positive )سوچ دیتے ہیں اور اسکو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔کہ آپ سے غلطی ہوئ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کیونکہ آپ تعلق کو مظبوط ، خوشگوار رکھنا چاہیتے ہیں جسکی وجہ سے آپ نے سوری کی۔
کہنے کو تو یہ بہت آسان لگتا ہے مگر ان کے لئے آسان ہے جو لوگوں سے تعلقات مظبوط اور رشتوں کو قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔مگر انکے لئے مشکل ہے جنکی سوچ یہ ہے کہ معافی کیوں مانگی جائے۔
ان کے لئے یہ عزت کی بات بن جاتی ہے کہ ہم سوری کیوں کہے غلطی تو انکی ہے تو معافی بھی وہ مانگے ۔ اگر میں نے سوری کہ دیا ، یا انہیں معاف کردیا اور اسکے جواب میں کچھ نہ کہا تو لوگ کیا کہے گے میری کیا عزت رہ جاے گی سب کے سامنے میری ناک کٹ جائے گی اُف میں کچھ بھی نہ کہ سکا کتنا بزُدل ہو میں وغیرہ وغیرہ۔
جب آپ سب کے سامنے sorry کہتے ہیں اور اپنے آپ کو پست رکھتے ہیں تو اللہ کی نظر میں آپکی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ معافی کی بنیاد دل کی فراغی اور وسعت قلب سے ہے۔
معافی ، معزرت، sorry، یہ سب ایک معنی رکھتے ہیں ۔تعلقات کو خراب ہونے سے بچانے میں ان الفاظ کا بہت بڑا حصہ ہے اگرچہ انہیں صیح وقت اور صیح جگہ پر استعمال کیا جائے۔اور سوری یا معافی کو مزاق نہ بنایاجائے۔غلطی ہر چھوٹے بڑے انسان سے ہو سکتی ہیں مگر ہماری سوچ یہ ہوتی ہے
کہ غلطی ہمیشہ چھوٹوں سے ہو تی ہےمگر بعض دفعہ بڑے بھی غلطی کر جاتے ہیں تو بڑوں کوبھی چاہیےکہ وہ بھی آگے بڑھکر sorry کہ دیںں تاکہ چھوٹوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ ہمارے نبی کی تعلیم و طریقہ سب کے لئے ایک تھا اور رہے گا ۔
امام غزالی کا قول ہے
اگر ہم سے غلطی ہوجائے تو ابلیس( شیطان) کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ معافی مانگ لینی چاہئے کیونکہ ہم ابن آدم ہے ابن ابلیس نہیں ۔
جب تک آپ کسی کو معاف نہیں کرتے تب تک آپ اپنے دل میں نفرت اور بدلے ، غصے کا بوجھ لئے پھرتے ہیں ۔اگر ہر شخص اپنی جگہ سوچے کہ غلطی مجھ سے بھی ہو سکتی ہے اور کوئ مجھے معاف نہ کرےاور نہ ہی میری معزرت قبول کرے تو سوچئے اپکے دل پر کیا گزرے گی ۔اسلئے معاف کریں اپنا بوجھ ہلکا کریں بوجھ ہلکا کرنے میں ہی فائدہ ہے ۔معاف کرنا ہمارے نبیوں اور پیغمبروں کی صفت ہے ۔ہم بھی انکی تعلیم پر عمل کریں اور پہلا step ہم خود اٹھائیں اور ان لوگوں کی صف میں شامل ہوجائیں جو سوسائٹی میں لوگوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار اور مظبوط رکھنا جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر غلطی ہوجائیں تو سوری (sorry) کہنے میں دیر نہں کرنی چاہئے ، یہی اصل خوشی ہے جو انگلش کے sorry اور اردو کے معافی میں چپھی ہوئ ہے۔