Skip to content

افشاں نوید۔۔

پاکستان

ماؤں کا عالمی دن

 

“یہ فقرہ عالمی شہرت کا حامل ہے کہ “میری ماں کے ہاتھوں جیسا ذائقہ کہیں بھی نہیں

فیس بک پر بھی بہت سی ساتھی کھانا پکانے کا ہنر سکھاتی ہیں۔
کھانا صرف “پکانا” ہی نہیں ہوتا بلکہ۔۔۔ اسے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیارکرنا کم خرچ میں بنانا, وقت بچانے والے طریقوں کو اپنانا, جاذبِ نظر انداز میں پیش کرنا, روزکچھ نیا بنانا, کیونکہ انسانی طبعیت یکسانیت سے بیزار جاتی ہے, جدت پسند ہے۔کھانا پکانا ایک مشکل کام ہے۔ یہ مشکلات وہی جانتا ہے جس نے یہ کام کیا ہو۔
مرد شوقیہ یا پیشہ ورانہ اس شغل کو اپناتے ہیں۔ جب کہ گھروں میں یہ کام مائیں مسلسل,ہر روز کرتی ہیں,تھکتی نہیں ہیں۔ کسی سے معاوضہ نہیں چاہتیں۔ ہر موسم میں کچن میں کھڑی رہتی ہیں۔ ہم مشرقی عورتیں اپنی نصف سے زیادہ زندگی کچن کو دیتی ہیں۔
ہم ایسا کیوں کرتی ہیں؟ اس لیے کہ کھانا اپنی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اشتہا انگیز خوشبوئیں اچھی لگتی ہیں۔ہم بھی اچھا اور بہت سا کھا کر خوش ہوتی ہیں۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔ کھانا پک کر تیار ہے۔ من بھاتی خوشبو گھر بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔
بھوک بھی جوبن پر ہے۔ پھر بھی ماں دیگچی کا ڈھکن نہیں کھولتی۔ پسینہ دوپٹے کے پلو سے صاف کرتی جاتی ہے۔ کچن سمیٹتے ہوئے, کان دروازے پر لگی کال بیل کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ ۔۔۔۔وہ آجائیں یا آجائے تو ساتھ کھانا کھائیں گے۔ وہ کبھی کہتے ہیں۔۔۔ اتنے ہزار یا اتنے لاکھ ماھانہ دیتا ہوں گھر میں۔ مگر ماں کی محنت کی اجرت کبھی متعین نہ ہوئی۔ لیبر ویلیو وہ کبھی نہیں جتاتی اس لیے کہ اپنے گھر میں وہ لیبر نہیں ۔۔۔ ماں ہے۔۔

یہاں دیار غیر میں دعوت کے لیے دوکلو قیمہ بنوانے کی ضرورت پڑی۔ معلوم ہوا کہ خاتون کی خدمات کا معاوضہ ڈیڑھ سو ڈالر ہوگا۔۔۔  دوکلو چھولے کی چاٹ کا معاوضہ سو ڈالر طلب کیا گیا۔ میں سوچنے لگی اگر مشرقی عورتوں کی خدمات کے یہ معاوضے ہوتے تو ان کے سَرِے میں محل ہوتے۔۔  یہاں خاندانوں کے اس درجہ کھکیڑ کم ہیں ۔۔ پکانا کم اور “بنانا ” زیادہ ہوتا ھے۔ کٹے ہوئے سلاد کے ساتھ ڈریسنگ تک دستیاب ہے۔ ٹنوں میں ریڈی میڈ بہت کچھ دستیاب ہے۔ درجنوں طرح کی کٹی ہوئی ,ابلی ہوئی سبزیاں ,بینز وغیرہ۔۔۔  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں زندگی آسان ہے البتہ کچن کی مصروفیت کم ہے۔ عام طور پر لوگ اپنا کام خود کرنے کے عادی ہیں۔ البتہ یہاں عورت کی زندگی مشرقی عورت کے مقابلے میں جانگسل ہے کیونکہ اس کو ملازمت کے ساتھ سارا دن اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ بھی خود کرنا ہے۔ گلی محلے میں دکان نہیں ہوتی۔۔ چھوٹی سی چیز کے لیے بھی گاڑی نکالنا لازم ہے۔  خیر۔۔۔۔آج کے دن ہم “اپنی ماؤں” کی بات کریں گے۔
جن کا کیرئیر ہی کچن ہے۔ جو نت نئے ذائقوں کی تلاش میں عمر بتا دیتی ہیں۔ جب دسترخوان پر بیٹھتی ہیں تو اپنی پلیٹ کبھی نہیں بھرتیں۔ ڈشیں اہل خانہ کے سامنے بڑھاتی رہتی ہیں اور نظریں تعاقب میں رہتی ہیں۔ “سنیے!کیا آج طبعیت اچھی نہیں ہے؟بھنا قیمہ تو آپ کی پسندیدہ ڈش ہے۔اچھی طرح کھایا کیوں نہیں؟”
بیٹے۔۔کیا آج بہت تھک گیے ہو۔نہاری تو تمہارے لیے ہی بناتی ہوں تم نے شوق سے نہیں کھائی۔” کبھی بیٹیوں کی پھیکی رنگت پر کھانوں میں صحت بخش اجزا کا اضافہ۔۔۔

کوئی اچھا کھانا اگر کم ہے دسترخوان پر۔۔ماں کبھی اپنی پلیٹ اس ڈش کی طرف نہیں بڑھائے گی۔ بہانہ یہ کہ آج اس چیز کی رغبت نہیں ہورہی۔ نظریں تاڑ جو چکی ہیں کہ دسترخوان پر بیٹھے پانچ لوگوں کو کم پڑ جائے گا اگر میں نے نکال لیا۔۔
گرمی,پسینہ,جسم کادرد (آج کھڑے ہوکر نہیں پکا سکی, صبح سے شدید اعصابی درد تھا۔)
سب دور ہو گیا یہ سن کر۔۔۔۔”بیگم! آج بریانی کا تو جواب نہیں۔”
“واہ امّی مزہ آگیا,میں دوستوں سے کہتا ہو “میری امی جیسے شامی کباب کوئی نہیں بنا سکتا۔ میری امی کے ہاتھ جیسا ذائقہ۔۔۔۔۔
آج کے دن ۔۔۔۔
ان ہاتھوں کے بارے میں سوچیے گا جن پر سلوٹیں آگئی ہیں کھانا پکاتے پکاتے مگر۔۔۔۔۔پھر بھی تھکے نہیں ہیں۔

چاھے وہ آپ کی ماں کے ہاتھ ہیں یا آپ کے بچوں کی ماں کے۔۔۔۔