Skip to content
share Share

يسر ولا تعسر۔ افسانہ 

رائٹر: امراه صادقہ 

او شوا

” ایک تو صبح سے اکیلی بیٹھی ہو اس گھر میں تو کسی کو اتنی فرصت بھی نہیں کہ دو گھڑی پاس ہی بیٹھ جائے۔ بیٹے نے تو چلو کمانا ہے اور بچوں نے پڑھنا ہے مگر بہو، اسے بھی کام پر جانا ہے۔ میں کہتی ہوں آخر کیا ضرورت ہے اسے کام پر جانے کی۔ آرام سے گھر سنبھالے“۔بیگم کمال نے روز کی طرح اپنا شکوہ پھر دہرایا۔ ”ہو گئیں آپ صبح صبح پھر سے شروع ۔ بیگم کچھ تو بہو کا احساس کیا کریں۔ آپ کو عادت ہو گئی ہے ہر وقت گلے کرنے کی ”۔ کمال صاحب نے ناگواری سے کہا۔ ” اور آپ کو تو میری ہر بات ہی بری لگتی ہے ۔ ہر وقت بہو کی طرف داری کرتے ہیں آپ ”۔ بیگم کمال نے تنک کر جواب دیا۔ ”ارے بہو کی طرف داری تو میری پرانی عادت ہے پہلے اپنی اماں کی بہو کی طرف داری کرتا تھا اب اپنی بہو کی طرف داری کرتا ہوں۔ آخر پرانی عادت آسانی سے تو نہیں چھوٹتی“۔ کمال صاحب نے بیگم کا موڈ خراب ہوتے دیکھ کر فورا موڈ بدال۔ ” ہونہہ، آخر آپ مجھے بتائیں ، بہو گھر کیوں نہیں بیٹھتی۔ آخر کیا ضرورت ہے اسے جاب کرنے کی“۔ بیگم کمال کا موڈ بدستور خراب رہا۔ ” اگر میں بتاؤں تو کیا آپ میری سنیں گی؟“ کمال صاحب ناصحانہ انداز میں بولے۔ ” ہمیشہ تو سنتی ہوں آپ کی بات۔ یہ آج کل کی لڑکیوں کی طرح تھوڑی ہوں جو شوہر اور ساس کی سنتی ہی نہیں“۔ بیگم کمال اترا کربولیں۔ ”یہ تو بھلی کہی آپ نے۔ ویسے میری اماں کی بات تو آپ نے ہمیشہ سنی تھی اور اس بات کے لئے میں معترف ہوں۔ اور یہ جو بات آپ نے کہی آج کل کی بہوؤں یعنی آپ کی بہو کی، تو میری پیاری بیگم، آپ بھول رہی ہیں آپ کی بہو ایک ڈاکٹر ہے اور آپ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی بہو ایک ڈاکٹر ہوں۔ جس طرح ایک مرد ڈاکٹر کی معاشرے کواور لوگوں کو ضرورت ہے اسی طرح خواتین ڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے۔ اور آپ خود بھی ہمیشہ سے ایک مرد ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے لیڈی ڈاکٹر کو ترجیح دیتی تھیں . اور دوسری بات ایک ڈاکٹرملک و قوم کا سرمایہ ہوتا ہے اور ان کا گھر بیٹھ رہنا قومی نقصان ہے۔ کیا آپ کی خوشی کی خاطر ساری قوم کو نقصان پہنچایا جائے۔ مزید یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کی بہو ہر روز سب کا ناشتہ، کھانا سب بنا کر کلینک جاتی ہے۔ پھر شام کو گھر آ کر ڈنر بھی تیار کرتی ہے ۔ ہر کام کو طریقے اور سلیقے سے کرتی ہے۔ آپ کی ہر

جائزضرورت کا خیال رکھتی ہے۔ گھر کے ہر کام میں اس کا سلیقہ اور اچھی تربیت جھلکتی ہے۔ پڑھی لکھی، باشعور لڑکی ہے جو گھر، شوہر اور بچوں کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھا رہی ہے۔ اب آپ اسے اپنے گھٹنے سے باندھ کر کیا ساس بہو کی روایتی چغلیاں کرنا چاہتی ہیں۔ ہللا کا شکر ادا کریں کہ آپ کی بہو آپ کا اس قدر خیال رکھتی ہے۔ آپ کی صحت اور آرام کا پورا دھیان رہتا ہے اسے۔ ہاں آپ کے پاس بیٹھ کر رشتہ داروں کی چغلیاں کرنے کی فرصت نہیں ہے اس کے پاس ! یہ آپ گلہ کر سکتی ہیں۔ اور تو مجھے کوئی برائی نظر نہیں آتی آپ کی بہو میں“۔ کمال صاحب نے لہجے کو شگفتہ رکھتے ہوئے کہا۔ ” چلیں مانا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن بچیوں کو دیکھا ہے آپ نے، سکول سے آ کر انہیں ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور ماں کے پاس فرصت ہی نہیں ہوتی ان کے لئے۔ ماں سے زیادہ وقت تو باپ کے ساتھ گزارتی ہیں۔ کچھ ہی دن میں موسم سرما کی چھٹیاں آرہی ہیں اور بچیاں گھر ہوں گی مگر ماں سارا دن غائب رہے گی۔ اس طرح بچیاں کیا سلیقہ سیکھیں گی“؟ بیگم کمال نے نیا شکوہ کیا۔ ” میری عزیز از جان بیگم، میری پیاری پیاری پوتیوں کی دادی جان آخر یہ کام آپ اور میں بھی تو کرسکتے ہیں۔ بچیاں ہمارے پاس ہی تو ہوں گی ناں! ہم سے کس قدر محبت کرتی ہیں تو کیوں نا ہم ان کے الڈ اٹھانے کے ساتھ تربیت کی طرف بھی توجہ کریں۔ ویسے بھی، بہو کلینک سے آکر بچیوں کے سکول کے کام بھی دیکھتی ہے۔ ان سے سارے دن کی مصروفیت پوچھتی ہے۔ ان کو پڑھائی میں مدد بھی دیتی ہے ان کی دنیاوی اور دینی تعلیم و تربیت کا خیال کرتی ہے۔ جب گھر ہوتی ہے اپنے ساتھ انہیں ہر نماز پڑھاتی ہےاور آپ کا بیٹا بھی ان بچیوں کا باپ ہے اگر وہ اپنی بچیوں کو ٹائم دیتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اوالد کی تربیت ماں اور باپ دونوں مل کر ہی کرتے ہیں۔ اور جہاں آپ کو کمی محسوس ہوتی ہے، وہاں آپ اور میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے کہ ایک بچے کی پرورش سارا گاؤں مل کر کرتا ہے اور ہم تو پھر ان کے اپنے دادا دادی ہیں۔ ہمارے نبی پاک نے بھی تو یہی سکھایا ہے کہ دوسروں کو آسانی دواور ان کے مشکالت نہ پیدا کرو“۔ کمال صاحب نے کمال محبت سے کہا۔ ”آپ سے باتوں میں کوئی جیت نہیں سکتا“۔ بیگم کمال نے محبت بھرا شکوہ کیا۔” اگر غلط بات کہہ رہا ہوں تو بتائیں۔ ورنہ محض ضد میں غلط بات نہ کریں اپنے دوسرے رشتہ داروں کی بہوؤں کو بھی تو دیکھیں ہر روز کے جھگڑے اور

مسائل۔ کوئی اپنے شوہر کو لے کر الگ ہو گئی ۔ماں باپ اور بہن بھائیوں کو ملتے بھی نہیں کوئی ساتھ رہ رہی ہے تو ہر روز جھگڑے۔ کیا آپ کو زندگی میں سکون پسند نہیں۔ ہللا کا شکر ادا کریں اور اپنی بہو کی قدر کریں“۔ 

بات تو ان کی سچ ہے مگر اقرار کیسے کروں“، بیگم کمال دل میں سوچ کر رہ گئی۔ ” اپنی جھوٹی انا کے ہاتھوں خانخواستہ اپنے گھر میں آگ نہ لگا لیں ۔ وقت پر سنبھل جائیں“۔ کمال صاحب نے بیگم کو مشورہ دیا۔ ” اچھا بچیوں کے آنے کا ٹائم ہو رہا ہے چلیں آج ہم دروازے پر جا کر بچیوں کا انتظار کرتے ہیں“۔ بیگم کمال نے چادر سنبھالتے ہوئے کہا۔” اچھی ابتدا ہے، چلیں“۔ کمال صاحب نے اٹھتے ہوئیے کہا۔ ” اور اس دفعہ چھٹیوں میں بچیوں کے ساتھ کچھ پالن بھی بناتے ہیں جس میں وہ کچھ سیکھ بھی سکیں“ ۔ بیگم کمال نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ کمال صاحب خوشدلی سے مسکرا اٹھے۔