Skip to content

ھجرت، یوم بدر اور فضائے بدر

یوم بدر کے حوالے سےخصوصی تحریر

شمائلہ عتیق

مسی ساگا

17 رمضان المبارک سن دو ھجری میں اسلام وکفر اور خیر و شر کا وہ عظیم معرکہ بپا ہوا جسے دنیا جنگ بدر کے نام سے جانتی ہے۔ جب مدینے کی نو زائیدہ ریاست نے انتہائی بے سروسامانی کے حالت میں قریش کی طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تو اپنے ایک پر کی نوک سے سدوم (قوم لوط) کی بستی کو اکھیڑ ڈالا تھا لیکن بدر میں وہ بھی نشان لگائے پرے باندھے فرشتوں کے ساتھ میدان جنگ میں اترے ۔کیوں؟ ان کے لیے کیا مشکل تھا مشرکین کو اکھاڑ ڈالنا۔ لیکن اللہ تعالی شجاعت اور عزیمت کی اس انوکھی داستان کو تاریخ کا حصہ بنانا چاہتا تھا ۔ وہ ہمیں یہ پیغام دینا چاھتا تھا کہ بے شک جب اللہ کی مدد اتی ہے تو اہل ایمان اسی طرح فتح یاب ہوتے ہیں ۔قرآن نے جنگ بدر پر اس طرح تبصرہ کیا ہے “بے شک تمہارے لیے ایک نشانی ہے کہ جب دو گروہ آمنے سامنے ہوئے تو ایک گروہ اللہ کے لیے لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا اور مومن انہیں اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے ۔ بے شک اللہ تائید کرتا ہے اپنی مدد کے ساتھ جس کی وہ چاہتا ہے اور اس میں نشان عبرت ہے عقلمندوں کے لیے”۔ آل عمران 13۔
جنگ بدر کے تناظر میں ہی سورہ انفال میں قرآن کامیابی اور اللہ کی مدد کا پورا پلان رہتی دنیا کے لیے ان الفاظ میں دیتا ہے ۔”اے ایمان والوں جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی “۔ ثابت قدم یعنی فوکس رہو، جس طرح قطب نما ہوتا ہے کہ کہیں بھی پھیرو اس کی سوئی مڑ کر پھر شمال کی جانب آ جاتی ہے، کتنا ہی ہلا لو، اوپر نیچے کر لو، اس کی سمت گھوم پھر کر وہی ایک رہتی ہے، اسی طرح فوکسڈ رہو اپنے مشن پر۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک ھجرت وہ تھی جو اہل مکہ نے کی، اور ایک ھجرت یہ ہے جو ہم نے کی ہے۔ ہم یہاں کیوں ائے ہیں؟ بلکہ زیادہ صحیح سوال یہ ہے کہ ہم یہاں کیوں لائے گئے ہیں؟ ہمیں یہاں لانے کا کیا مقصد ہے؟اس سوال کو بار بار خود سے پوچھنے کی، فوکس کرنے اس پر مستقل اپنی نظریں جمانے کی ضرورت ہے۔میری ایک قریبی عزیزہ نے کینیڈا آنے کے بعد اپنے کمپیوٹر ،انجینئرنگ اور بزنس کے کیریئر کو یہ کہہ کر خیر باد کہہ دیا کہ میں یہاں مشینوں سے سر کھپانے نہیں ائی اور جرنلزم کو یہ کہہ کر اختیار کر لیا کہ میں مغرب میں اسلام کا مقدمہ لڑ نے آئی ہوں ۔اس وقت اکثریت کو ان کا یہ فیصلہ حماقت اور بے وقوفی لگا تھا، جو سراسر دنیاوی نقصان تھا۔ لیکن آج جب میں اسے جنیوا کنوینشن ،یو این او کے نیویارک آفس اور سوشل میڈیا سے اسلام کا نقطہ نظر پیش کرتے، مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتے اور ان کے خلاف کئے جانیوالے پروپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کتنا درست تھا۔ آج ہمیں ایسے اسلام پسند، تعلیم یافتہ اور انٹلیکچول افراد کی اشد ضرورت ہے جو مغرب میں اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پیروپیگنڈے کا جواب دیں اورامت مسلمہ کے خلاف یہود و ہنود کی سازشوں کو بےنقاب کریں۔ ہمیں ایسے میڈیا گروپس چاہییں جو حق و صداقت کے علمبردار ہوں۔ درحقیقت اسلاموفوبیا ،LGBTQ ,فیمینزم کا جو عفریت منہ کھولے ہماری نسلوں کو نگلنے کے لیے تیار کھڑا ہے ،اس کا بھی علاج اسی میں مضمر ہے ۔
مغربی ممالک میں مسلمان ماؤں کا سب سے بڑا مشن یہی ہے کہ وہ خود دعوت دین کا کام تن،من ،دھن سے کریں اور اپنے بچوں کو ڈالر جھاپنے کی مشین بنانے کے بجائے میڈیا کی اس وار میں حق اور صداقت کا سپاہی بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔ اگر آج ہم نے یہ کام نہ کیا تو تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔
ہماری داستان تک بھی، نہ ہوگی داستانوں میں لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔کیونکہ ہماری اولادوں کے دل ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں، ہمارے ہاتھ میں بس یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کو حرز جاں بنائیں اور دعا کو اپنا ہتھیار۔۔۔۔اللہ ہم سے اور ہماری نسلوں سے اپنے دین کا کام بہترین انداز میں لے لے ۔آمین ۔  ہو سکتا ہے ہم اپنی زندگی میں اپنی اولادوں کے لئے اس دعا کو قبول ہوتا نہ دیکھ سکیں تو مایوس نہ ہوں۔ خلوص دل سے مانگی جانے والی دعا کبھی رائگاں نہیں جاتی۔یاد رکھیئے عیسی علیہ السلام اپنی ماں کی نہیں اپنی نانی کی دعا تھے۔ جنہوں نے کہا تھا کہ ۔۔جو میرے پیٹ میں ہے اسے میں تیری نظر کرتی ہوں۔۔۔ اور جواب ملا تھا “پس اسے قبول کر لیا گیا”۔

اللہ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ ہماری دعائیں بھی قبول ہوں اور ہماری نسلوں میں بھی ایسے داعئ دین پروان چڑھیں جو دنیائے اسلام کا چمکتا ہوا ستارہ ہوں، اور جن کی آوازیں اس میڈیا وار میں آسمان سے فرشتوں کے اترنے کا سبب بن جائیں۔

 

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی