افشاں نوید
پاکستان
ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اسلام کو یہودیت, عیسائیت, ہندومت یا بدھ مت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ہمیں سب سے بڑا خطرہ سرمایہ دارانہ نظام سے ہے۔۔جس کے شکنجے میں پوری دنیا آچکی ہے۔یہ نعمتیں ہمارا حق ہیں۔۔شکر بھی ادا کررہے ہیں۔۔”دنیا میں نعمتوں کی سب سے زیادہ مستحق اگر کوئی ہستی تھی تو وہ آپ جناب ﷺکی ہستی تھی کہ آپ ﷺ جیسا حق بندگی تو ہم ادا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مدینے میں کبھی ہمیں دو وقت جو کی روٹی پیٹ بھر دستیاب نہ ہوئی۔۔”کبھی جو کوئی مہمان دیہاتی اچانک آگیا پورے محلے سے ہوچھا جاتا کہ کچھ کھانے کو دستیاب ہے یا بکری کا دودھ ہی مل جائے تو وہ بھی نہ دستیاب ہوتا۔۔ایک بار مارے خجالت کے شہزادی فاطمہؓ اپنی اوڑھنی گروی رکھ کر کچھ جو ایک یہودی سے ادھار منگواتی ہیں کہ مہمان بھوکا کیوں جائے میرے دروازے سے۔۔۔وہ بہت پیارے لوگ کیوں فقر فاقہ کاشکار رہے۔۔یہ فقر عذاب یا آزمائش نہ تھی یہ اختیاری فقر تھا ۔صرف امت کو بتانے کے لیے کہ جب دنیا ہاتھ پھیلا کے تمہاری طرف بڑھے تو اس سمندر سے چھاگل بھر پانی ہی لینا۔ورنہ ڈوبنا بہت آسان۔۔یا پھر عثمان ؓ جیسا ظرف طلب کرنا جو غنی بنادے نہ کہ بندۀ دنیا۔۔۔
آپﷺ ہی نے نہیں, آپﷺ کے اصحابؓ, تابعین,ؒ اور تبع تابعینؒ نے بھی زندگی کی حقیقت کو سمجھا کہ وہ دسترخوان پر سالن دیکھ کر رو پڑتے کہ ہمیں تو دن لگ گئے اور اللہ کے محبوبﷺ کس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے۔۔۔جو حدیث و فقہ کے امام تھےروٹی کے ساتھ سرکہ استعمال کرنے لگے۔۔۔وہ بھی تلامذہ کے اصرار پر کہ۔۔۔ آپ دماغی مشقت کرتے ہیں صرف روٹی سے دماغی صلاحیت متاثر نہ ہوجائے کچھ سالن بھی لے لیا کریں۔۔تو بہ تکلف آپ( امام ابو حنیفہؒ)نے سرکہ لینا شروع کردیا بطور سالن۔۔ہم اپنے ان اسلاف سے زیادہ دین کی روح سمجھتے ہیں کیا؟؟ اب جانتے ہیں اصل دشمن کو۔۔۔۔سرمایہ دارانہ نظام کا کلمہ ہے” لا الہ الا الانسان” یعنی انسان کے سوا کوئی معبود نہیں۔۔
اس کی ہر خواہش پوری ہونا چاہیے ۔۔انسان کسی بھی ہستی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔زندگی کا مقصد بہت سا کمانا اور خرچ کر کے لطف ولذت کا حصول ہے۔۔سوچیں! آپ نے موبائل اٹھایا کسی خاص کام کے لیے۔۔صبح صادق کا وقت ہے. آپ کے سامنےبازار کھل گئے۔۔50 فیصد سیل۔۔۔آخری دن۔۔سب بھول بھال آپ کی انگلیاں حرکت میں آگئیں۔۔۔دو کی قیمت میں تین لیجیے۔۔۔ارے یہ گولڈن چانس مس نہ ہوجائے۔۔فجر سے پہلے آپ نے کئی آرڈر دے دیے۔۔
ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں۔۔۔ کتنی چیزیں ہماری ضرورت تھیں؟ کتنی ہم سے “کہا گیا” کہ تمہاری ضرورت ہیں۔۔ اور ہم نے خرید لیں۔۔۔
سرمایہ دار ہمارا ہاتھ تھامے ہمیں بازاروں میں لیے پھر رہا ہے کہ یہ سب تمہارے لیے ہے۔۔ہر برانڈ کی سیل پر ہم خریداری کولازم سمجھتے ہیں۔۔
ہماری مائیں سال میں چار جوڑے بناتی تھیں ہم درجنوں بناتے ہیں۔۔ہوس ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔۔یہ “ہوس” سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی “ٹول” ہے۔۔۔ماسیوں کے جدید تراش خراش کے کپڑوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ باجیوں کی الماریوں میں جگہ نہیں رہی۔۔کپڑے ابل رہے ہیں اور ماسیوں کے ذوق نفیس تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔۔ہماری پڑوسن ہینڈ بیگ اور چھوٹے بچوں کے لباس تیار کرتی ہیں۔۔دراز” پر رکھواتی ہیں۔۔۔میں نے پوچھا یہ بیگ جو آپ کے پاس ہے اس کی کیا قیمت ہے؟
بولیں :”ٹیگ تو دوہزار کا ہوتا ہے مگر 50 فیصد سیل پرایک ہزار کا بکتا ہے۔”
گویا اصل قیمت ہی ایک ہزار ہے۔۔ہم سمجھتے ہیں حقیقت میں ہمیں 50 فیصدرعایت دی جاتی ہےجب کہ اس شے کی اصل قیمت ہی وہ ہوتی ہے جو ہم سیل کی صورت ادا کرتے ہیں۔۔لفظ سیل کے ذریعے ایک ہوس ہمارے اندر پیدا کر دی گئی۔۔۔یہ لفظ سن کر ہم ہواس باختہ ہوجاتے ہیں۔۔بات کو اورسادہ کرتے ہیں۔۔ہماری آپس کی گفتگو لباس، کھانےاور مزید آسائش کے حصول کے گرد گھومتی ہے۔ہم دن کا بیشتر وقت کسی نہ کسی شکوے اور فکر میں گزارتے ہیں۔۔اپنی فکروں کا جائزہ لیں۔۔۔۔۔۔
ہم میں سے کتنے کتابوں کو ڈسکس کرتے ہیں۔۔
سوشل میڈیا پر نئے لباسوں کی بھرمار۔۔۔
جان رکھیے ہمارے پاس جتنی حسیات ہیں ان میں 80 فیصد کا تعلق ہمارے دیکھنے سے ہے۔۔ہم جو دیکھتے ہیں وہ لینا چاھتے ہیں۔۔۔پہلے ہم بازار دیکھنے جاتے تھے اب ایک کلک پر بازار ہی بازار۔۔پہلے کبھی سالانہ سیل لگتی تھی اب سال بھر کسی نہ کسی برانڈ کی سیل۔۔
سرمائے کا ہونا برا نہیں۔۔خرچ کرنا بھی برا نہیں۔۔(تعیشات اور ضروریات کے دائرے ہم خود متعین کرسکتے ہیں)۔کوئی ارب پتی گناہ گار نہیں ہے۔لیکن اگر زندگی کا مقصد سرمائے کا حصول اور اس میں اضافہ کی ہوس ہے تو وہ مسلمان ہوتے بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے جو اسلام کادشمن ہے۔۔یہ نظام فرد میں حرص وحسد پیدا کرکے اسے زرکا بندہ بنا دیتا ہے۔۔زر کی بندگی شرک ہے۔۔
ہمارے اطراف لوگوں کا مقصدزندگی آپ کو امربالمعروف ونہی عن المنکر نظر آتا ہے؟؟؟
وہ معاشرتی بگاڑ میں اپنا کردار ادا کرنے پر تیار نظر آتے ہیں؟؟
ہم میں سے بیشتر یہ کہ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ زمانہ کتنا خراب ہوگیا۔۔ہمارا بچپن کتنا اچھا تھا ہمارے بچوں سے تو بچپن ہی چھن گیا۔۔
مگر۔۔۔۔ ہم کوئی انقلابی کردار ادا کرنے پر تیار نہیں۔۔۔اور سب چھوڑیں ہم اپنےبچوں کو تعلیم دلاتے ہوئے کن مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔۔۔ان کا۔۔۔۔جن سےزیادہ ملازمت کے مواقع حاصل ہوں۔۔۔بات لمبی ہوگئی ۔۔۔۔۔آج پاکستان کےبیشتر گھروں میں بوڑھے ماں باپ تنہا ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام احساس سے عاری ہے۔وہ کہتا ہے کہ تمہارے لطف ولذت کی راہ میں جو چیز آڑے آئے اسے ٹھوکرمار دو۔۔۔ چاھے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔۔یورپ, امریکا سب سرمایہ دارانہ نظام قبول کرچکے۔وہاں سب اس لیے سرمائےکے پیچھے بھاگتے ہیں کہ بیٹا باپ کو روٹی نہیں دے سکتا, جوان بہن کی بھائی کو پروا نہیں۔۔اپنا کماؤ اور خود خرچ کرو۔۔ سب امیر ہیں مگر کوئی کسی کا نہیں۔۔غم غلط کرنے کو وہ ڈرگز کی آغوش مں چلے جاتے ہیں۔۔۔وہ بے خدا معاشرے ہیں۔۔۔
ہمیں بھی اسی بے خدا معاشرے کی طرف دھکیلا جارہا ہے کہ تمہاری نسلوں کا ایمان خطرے میں پڑے تو کوئی بات نہیں۔انھیں زیادہ معاش کے لیے بن خدا معاشروں کے حوالے کردو۔۔ان مغربی معاشروں میں جو دین اسلام کی خدمت کررہے ہیں ۔عیسائی مشنریز کی طرح خود کو وقف کیے ہوئے ہیں وہ بہت خوش نصیب۔۔مگر جو یہ سوچتے ہیں کہ” جائز کماکر عیش کررہے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف۔”
مسلمان کو زندگی عیش کرنے کے لیے نہیں دی گئی تھی۔ایک مقصد سے جوڑی گئی تھی ۔۔عیسائی مشنریز تو اس مقصد کو پہچانتی ہیں مگر عام مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔۔
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔
بہت کچھ تبدیل ہوگیا بہت کچھ بدلنے جارہا ھے مگر احساس زیاں باقی رہنا چاھیے۔۔
الھکم التکاثر۔۔۔۔۔جو ہلاکت تھی تکاثر میں اس ہلاکت کو ہم محسوس بھی نہیں کرتے۔۔مزید آسائش کی طلب سے بڑی اور کیا ہلاکت ہوسکتی ہے؟؟؟ ۔۔ایک ہی چھاگل پاس ہے زندگی کے اس سفر میں۔۔۔کیا کھونا ہے کیا پانا ہے۔۔اس چھاگل سے پاؤں دھونے نہ بیٹھ جائیں۔۔۔
یہ ہمارا فیصلہ ھے۔۔جن نسوانی ہاتھوں کو اولاد کی تربیت کی عظیم ذمہ داری دے کر معاش سے بے نیاز کیا گیا تھا ۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کہتا ہے تمہاری اصل قدر یہ ہے کہ تم کتنا کماسکتی ہو؟ ضرورت کے وقت معاشی بھاگ دوڑ پر عورت پر کوئی پابندی نہیں۔۔بلکہ اجر ہے مگر۔۔۔۔
ملازمت کو باعث فخر سمجھ کر خانگی ذمہ داریوں یا تربیت اولاد سے پہلو تہی۔۔۔۔۔۔معیار زندگی کی تو کوئی حد ہی نہیں۔۔۔
فتنوں سے آگہی ایمان کی علامت ہے۔۔سرمایہ دارانہ نظام سے ضرور آگہی حاصل کیجیے کہ ہم اس کا ہدف ہیں۔۔۔۔