Skip to content

کرونا اور کچن

By: یسرا

 

کرونا سے پہلے کچن میں روزانہ جانا ہوتا تھا مگر اب تو لگتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف اور صرف کچن میں رہ کر کھانا بنانا اور گروسری لکھنا کہ اب کیا لانا ہے اور کیا بنانا ہے پہلے تھوڑا بہت آرام مل جاتا تھا مگر اب ہاۓ کیا کروں اب تو میری ذندگی لگتا ہے کچن کے اردگرد گھوم رہی ہے کبھی بچوں کی فرمائش اور کبھی میاں جی کی، اب تو لگتا ہے ہروقت کچن کودیکھ کردرودیوارسے یہ آواز سنائ دیتی ہے “ کاش مجھے کچن سے تا حیات نااہل کردیا جاۓ سچ کبھی نہیں کہوں گی کہ مجھے کیوں نکالا؟

اب وہ زمانہ یاد آتا ہے کیسے ویک اینڈ پر باہر کھانا کھانے جاتے تھے کیسے آڈر دیتے تھے اب اپ کہیں گی ارے بھئی فون پر آڈر دے دو یا اوبر سے منگوا لو – کہنا آسان ہے مگر کام تو پھر بھی کرنا پڑےگا نا – پہلے تو فون پر کپڑوں اور نت نئے ڈیزاین کے بارے میں باتیں تو کبھی حالات حاضرہ تو کبھی ڈراموں پر بھی طبع آزمائی ہو جاتی تھی مگر اب لگتا ہے جینے کا انداز بدل گیا ہے بچے کبھی گھر اور کبھی اسکول میں – میاں صاحب کی چھٹی کو ہم ترسا کرتےتھے کہ کب وہ گھر پر رکیں اور گھر کے کاموں میں مدد کریں – اب وہ گھر پر تو ہوتے ہیں مگر انکا ہونا نہ ہونا ایک ہے کیونکہ وہ اپنے آفس ٹائم میں اپنے کمرے میں computer کے سامنے ہوتے ہیں -ہاں تو میں کہ رہی تھی کہ فون پر باتیں ہاۓ کیا بتاؤں اب اپ کو خیر چھوڑیئے ان باتوں کو اب تو فون پر بات ہوتی ہے تو ایسے جیسے ہم سب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر جلدی جلدی خیر خیریت پوچھ لیں – اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہوتا ہے آج کھانے میں کیا بنا رہی ہو ؟ اور جب ڈِش کا نام معلوم ہوجاتا تو یہ کہہ کر فون بند کرنا پڑتا ہے کہ بچوں کو دیکھ لوں آ ن لائن کلاس لے رہے ہیں -انکو بٹھانا بھی ایک بڑا مرحلہ ہوتا ہے– انکی فرمائش بھی نوٹ کرنا کیونکہ بچے گھر پر کلاسیں بھی تو لے رہے ہیں پھر وعدہ تو پورا کرنا پڑے گا – اور تو اور باہر جا کر شاپنگ کرنا بھی بند ہوگیا اب جس کو دیکھو آن لائن شاپنگ- بھئی کیا کہنے وہ باہر جا کر شاپنگ کرنا اور ساتھ کچھ کھانا اسکا بھی اپنا ایک مزہ تھا-مجھے لگتا ہے کافی ہوگیا ۔وہ بھی زندگی گزارنے کا ایک انداز تھا اور ایک یہ موجودہ انداز ، فرق تو ہے۔ دونوں میں ۔ مگر ہم سب نے اس انداز کو سمجھا اور اسکے مطابق خود کو بدل بھی لیا –

اگر ہم تھوڑا بہت اپنی زندگی میں مزاح کا رنگ نہیں رکھیں گے تو زندگی واقعی بوجھل ہوجاۓ گی بحیثیت مسلمان ہم سب یہ جانتے ہیں کہ زندگی میں غم اور خوشی دونوں ہی شامل ہیں اب ہم اسکو کس طرح سے لیتے ہیں یہ ہم پر ہے- اس کرونا میں جہاں زندگی بدلی اپنے رب کے قریب جانے کا موقع ملا – یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری پلاننگ سے دنیا نہیں چلتی بلکہ اللہ کے حکم سے سب کام ہوتے ہے اور بندے کا کام ہے صرف اسکی اطاعت کرنا اور حکم عدولی سے بچنا ہے- اپنے رب کا شکر ہر لمحے کرتے رہیں –

گزشتہ سال یہی صورت حال تھی، مگرہمیں اس سے نمٹنے کا طریقہ نہیں معلوم تھا – اب حالات کا ادراک ہو گیا ہے- اس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ ہم سب احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور احتیاط کا دامن کبھی نہ چھوڑیں- کیونکہ احتیاط ہی بہتر ین علاج ہے –