پرفیکٹ پرنٹنگ
نیر تاباں
Newfoundland Canada
میں پہلے بھی ذکر کر چکی ہوں کہ میں جو بھی سیکھتی ہوں، عموماً اس کے پیچھے وجہ یا انسپیریشن میرا بیٹا ہوتا ہے۔ چاہے وہ نیچرل لونگ ہو، قرآن سٹوریز ہو، یا کچھ اور۔ سال ڈیڑھ پہلے جب سلمان آصف صدیقی صاحب کے PTCC کورس میں انرول کیا، تو بھی میرے سامنے ایک ہی وجہ تھی: احمد! ابھی جب ڈاکٹر شیفالی کا Teen Troubles جوائن کیا تو بھی وجہ وہی تھی۔
بات یہ ہے کہ جب یہ بچے چھوٹے تھے تو سب کچھ بہت آسان تھا۔ آپ ایکٹیویٹیز کر لیں، دن میں متعدد ہگز۔ بک ریڈنگ اور رات سونے سے پہلے پیار دلار والی باتیں۔ننھے ہاتھ ہاتھوں میں لے کر سامنے گھٹنوں بل بیٹھ کر آئے کانٹیکٹ کرنا۔ یہ سب بہت پیارا اور کافی آسان تھا۔
مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب ہم بڑے ہوتے بچوں سے بھی وہی رویہ رکھتے ہیں۔ انہیں کنٹرول کرنا۔ جب متھے لگیں، تبھی “یہ اٹھاؤ، وہ رکھو، ایسا کیوں ویسا کیوں؟” ایسے والدین کے ساتھ بچے وقت کیونکہ گزارنا چاہیں گے؟
وہ سلمان آصف صدیقی صاحب کا کورس ہو یا ڈاکٹر شیفالی کا، کئی کئی گھنٹوں کے لیکچرز صرف اور صرف ایک بات کے گرد کھومتے ہیں: تعلق! اپنے بڑے ہوتے بچوں کے ساتھ تعلق میں آئیں۔ ہماری ہمہ وقت کی اصلاح اس تعلق کے بخیے ادھیڑ دیتی ہے۔ بالخصوص اپنے جینڈر کی اولاد کا تو جینا مشکل کر دیتے ہیں۔ ماؤں کو اپنی بیٹیاں ہر اعتبار سے بہترین اور سیانی اور سلیقہ مند چاہییں اور ابا لوگ کو اپنے بیٹے سوپر سے بھی اوپر۔ توقعات کے اس جھمیلے میں ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ جو دس بارہ پندرہ اٹھارہ سال کا ہمارا بچہ ہے وہ بہرحال ایک ٹین ایجر ہی ہے۔ لاپرواہی اور غیر سنجیدگی اس عمر کا حصہ ہے۔ ہم ہر وقت بچوں کے لئے مصلح اور مبلغ بنے رہتے ہیں، جبکہ بچوں کو اپنی زندگی میں ایک مربی کی ضرورت ہے۔
بقول ڈاکٹر شیفالی، ہمیں اپنے بچوں کا ally بننا ہو گا جو ان کے ساتھ کھڑا ہو، یا پھر دو قدم پیچھے۔ ساتھ، جب ہماری اولاد کو ہماری ضرورت ہے اور پیچھے جب کوئی گڑبڑ ہو جائے تو ان کا سہارا۔ اب انگلی پکڑ کر ان سے دو قدم آگے چلنے کا وقت گزر چکا۔
بچوں کو غلط صحیح بتانا بطور والدین ہمارا کام ہے لیکن ہر وقت اور ہر چیز پر غلطیاں ہی نکالے چلے جانا تعلق کی موت ہے۔ ہم اصلاح کریں گے، لیکن اس بار ان نوجوان بچوں کی نہیں، بلکہ اپنی، اپنی جھوٹی انا کی، پرفیکٹ پیرینٹ اور پرفیکٹ اولاد کی ڈیفینیشن کی، اپنی ان سیکیوریٹیز کی، بے جا توقعات کی، غیر مناسب رویوں کی۔