Skip to content

Reshma Yaseen

Mississauga

8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور یہ دن تقریباً دنیا کے بیشتر ممالک میں منایا جاتا ہے ۔ یہ دن منانے کا مقصد عالمی سطح پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کچھ ذیادہ پرانی نہیں۔ یہ ایک صدی قبل روس میں Bread and Peace کے مظاہرے کے بعد سے منایا جانے لگا۔ 1908 میں روس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے مشقت اور تنخواہوں میں کمی کے باعث مظاہرے شروع کئے تھے تاکہ انکے کام کے اوقات کو 10 گھنٹوں کے بجاۓ 8 گھنٹے کیا جاۓ اور انکی تنخواہ کو بڑھایا جاۓ ۔اسی طرح پھر امریکہ میں 28فروری 1909 خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا گیا اور اسکے بعد سے

یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ آخرکار اقوام متحدہ نے 8 مارچ 1977کو یہ دن خواتین کے عالمی دن کے طور پر عالمی سطح پر قبول کر لیا ۔
یہ تاریخ بتانے کا مقصود صرف یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ دنیا نے صرف ایک صدی پہلے عورتوں کے بارے میں سوچا وہ بھی انکی اتنی جدوجہد کےبعد۔۔۔۔
جبکہ دین اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ اسلام نے عورت کو چاہے وہ جس روپ میں بھی ہو اسکو مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ ماں ہے، تو جنت اسکے قدموں کے نیچے ہونے کی بشارت دی- بیٹی ہے، تو اسکا اپنا مقام اور بیوی ہے تو الگ مقام رکھا – اسلام سے پہلے جو عورت کا درجہ تھا وہ ہم سب جانتے ہیں – عورت کو ذلت سمجھنے والوں کو اسلام نے بتا دیا کہ عورت ایک عظیم ہستی ہے- قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
“اے لوگوں اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسکی جنس سے اسکا ایک جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں ( سورہ النساء # 4-1 )

قرآن پاک کے علاوہ کئی احادیث رسول میں عورتوں کے حقوق و فرائض اور انکی معاشرے میں اہمیت کا ذکر واضح طور پر موجود ہے. اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے احترام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور رسول اللہ کا یہ عمل دنیا والوں کو عورت کے مقام ومنزلت کو اچھی طرح سمجھا رہا ہے کہ عورت کو عزت و احترام سے دیکھا جاۓ – اب وہ حق ملکیت کا ہو یا آزادی رائے کا ،ووٹ لینے اور دینے کا حق ہو، یا وراثت میں حصہ ۔۔ عورت معاشرے میں مردوں کے برابر حقوق رکھتی ہے –اسلام میں عمل اور اجر میں مرد و عورت برابر ہیں چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ

“مردوں کو اپنی کمائ کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائ کا حصہ ہے اور ( دونوں) اللہ سے اسکا فضل مانگو ( سورہ النساء # 32 )

ہمارے دین اسلام نے ہمیں زندگی سے لے کر موت تک کے بارے میں بہت اچھی طرح سے بتا دیا ہے مگر نہیں ہے ہم میں تجستجو ، شعور ، اور عمل ۔
اس جستجو، شعور اور عمل کو پھیلانے کی زمہ داری ہم سب کی ہے ۔آج کی دنیا سوشل میڈیا کی دنیا ہے۔ہم دیکھتے ہیں سوشل میڈیا میں بات چند سکینڈ میں کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے ۔عورتوں کے دن کے حوالے سے جو کچھ سڑکوں پر ہوتا ہے وہ سکینڈوں میں سوشل میڈیا کی نظر ہوجاتا ہے ،

جہاں عورت مارچ سے لی گئی تصویریں اپلوڈ کی جاتی ہیں وہاں ان پر تبصرے اور پھر اسکے بعد ان تصویروں پر تبصرے اور ان پر چلنے والی بحث پھر کئ کئی دن تک جاری رہتی ہے ۔ اس بحث میں اصل ایشو کہیں دب جاتا ہے کہ کس مقصد کے لئے یہ دن منایا جاتا ہے۔ جس قسم کی خواتین سڑکوں پر نظر آتی ہے وہ کہیں سے بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ ان پر کوئی جبر ظلم ، تشدد ، یا انکے جائز حقوق جو دین اسلام نے دئیے ہیں وہ نہ ملے ہوں۔ جس طرح کے وہ پلے کارڈ اٹھاۓ ہوتی ہیں وہ انکی class سے match نہیں ہو رہے ہوتے ہیں – اس مارچ کا اصل مقصد تو وہ خواتین تھیں جو سہمی ہوئی گھروں میں بیٹھی ہیں جنکو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ، یا وہ خواتین جو کسی مجبوری کے تحت نوکری کرنے نکلتی ہیں مگر انکا کسطرح استحصال ہوتا ہے یا انکو کس کس طرح ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خواتین گھر بچے رشتہ دار سب کو دیکھتی ہیں مگر کوئی انکو نہیں دیکھتا کہ یہ بھی انسان ہیں انکو بھی توجہ کی ضرورت ہے ۔ اس طرف سے غفلت ھے ۔ یہ المیہ ھے جو جاری ھے اور جاری رہے گا جب تک کہ یہ upper class کی خواتین عام گھریلو خواتین کے حقوق کے نام پر مارچ کر کے International Media سے coverage لیتی رہیں گی۔
ہمارے دین نے تو ہمیں سب بتادیا ہے کہ جب حقوق ہیں تو پھر فرائض بھی ہیں ہم کیوں یہ بات بھول جاتے ہیں؟ اگر حقوق و فرائض کسی کو یاد نہیں تو اپنی کتاب قرآن مجید کو پڑھیں اور سمجھیں۔مرد اور زن اسکو اپنی انا کا مسلۂ نہ بنائیں۔ مرد اور زن دونوں ملکر ہی ایک گھراور گھر سے آگے خاندان اور ایک معاشرہ بناتے ہیں ۔

دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ لہذا، دونوں پہلے اپنے فرائض پر توجہ دیں تو حقوق بھی ادا ہو جاہیں گے ۔اسلام میں عورتوں کا مقام دیکھنا چاہتے ہو تو آئو اور اسلام سے پوچھو تاریخ اسلام کے اوراق آج بھی اسکی شہادت دیتے ہیں کہ وہ ایک عورت ہی تھی جس نے صلح حدیبیہ کے نازک موقع پر نبی کریم کو نیک مشورہ دیا تھا۔وہ عورت ہی تھی جو اونچے پہاڑ پر چڑھ کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کھانا پہونچایا کرتی تھی ۔ وہ عورت ہی تھی جس نے اپنا سارا مال آپ کے قدموں میں نچھاور کر دیا تھا۔وہ عورت ہی تھی جس نے گھبراہٹ کے وقت آپ کو حوصلہ دیا تھا ۔وہ عورت ہی تھی جس نے اسلام کی خاطر سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں