“دُرمکنون ”
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
Shehla Khizar Pakistan
وومین ڈے کی بات کریں تو دل چاہتا ہے کہ دل کھول کر سب کچھ کہا جاۓ ‘ بتایا جاۓ کے خواتین کے اعزاز و اکرام کے لیۓ ایک دن مقرر کر دینا کافی نہی ‘بلکہ اس شعور کی ترویج کی ضرورت ہے کہ عورت ہی وہ ہستی ہے جس کے زمے رب کریم نے تخلیق نسل أدم ‘ اور پرورش و نگہداشت کی اہم۔ترین زمہ داری سونپی’ عورت معمار بھی ہے وہ کسی بھی قوم کی بہترین روایات کے تحفظ اور انسانئیت کی تکمیل اور تہزیب کی بقا کی زمہ دار بھی ہے ۔۔۔
معاشرہ چاہے مغرب کی سمت پر قائم ہو یا چاہے اس کی سمت مشرق ہو ۔۔انسانوں کی سرشت بحر حال ایک ہی جیسی ہے۔۔۔کم زور اور زیر دست پر حاکمئیت کی سرشت ‘خود پرستی اور انا پرستی کی سرشت ۔۔۔۔۔۔یہ مسائل کسی صنف ‘ خطے ‘ تہزیب یا مزہب سے منسوب کرنا کم فہمی ہے ‘یہ انسانئیت کے مسائل ہیں ۔۔انہیں broader prospective سے سمجھنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ مشرقی معاشرے میں خواتین کو اپنے فیصلے کرنے کا اختیار کم ہی ملتا ہے جبکہ مغرب کی عورت آذاد ہے ‘ خود مختار ہے ‘لیکن اس بات کا ہرگزیہ مطلب یہ نہی ہے کہ اسے کوئ فکرو غم نہی اور وہ مثالی زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔بلکہ اس کے بر عکس تھوڑی سی آزادی کے عوض اسے بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے ۔۔وہ معاش کے لیۓ مردانہ وار کام کرتو لیتی ہے پر اس کا فطری طور پر نازک احساسات و جزبات سے مرتب مزاج شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے ۔۔۔۔اسے نسل نو کی پیدائش ‘ پرورش اور تربئیت کی اہم۔ترین زمہ داریوں کے لیۓ جس پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے میسر نہی۔ نتیجتا” بچے اپنی قدرت کی عطا کردہ اولین تربئیت گاہ سے محروم ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔اگرچہ مشرقی ممالک میں خواتین کی بڑی تعداد نوکری نہی کرتیں مگر یہاں کے مسائل دوسری نوعئیت کے ہیں ۔۔۔۔۔یہاں پر کم علمی ‘ تنگ نظری ‘ اور دقیانوسی سوچ کی وجہ سے عورت گھر پر رہتے ہوۓ بھی اپنے بچوں کو quality time اور quality up bringing کر نہی پاتی ۔۔۔۔کلچر کے نام پر مشرق میں عورت پر بلا وجہ کے زہنی اور جسمانی بریشر ڈالےجاتے ہیں ۔گھریلو کاموں سے وہ جتنی بھی بوجھل ہو ‘ اور صحت کے جتنے بھی مسائل کا شکار ہو ‘ اسے گھر اور بچوں کے کام خود ہی نمٹانے ہیں ‘ مرد صرف کمانے کی زمہ داری اٹھاتا ہے’ عورت کی گھریلو امور میں مدد کرنا عموما” مردانہ شان کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔بیشتر مشرقی خواتین کو خود اپنے بنیادی حقوق کا شعور ہی نہی ہوتا .
اس کے علاوہ عورتوں کو دنیا بھر میں صنفی امتیاز کے مسائل کا سامنا ہے ۔فطری طور پر عورت بہت حساس واقع ہوئ ہے ۔اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے نہائیت نرم روئیے اور بہترین اعتماد دیا جاۓ تاکہ وہ معاشرے کی تشکیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کر پاۓ ۔۔۔اس کے لیۓ ضروری ہے کہ عورت کو صحت ‘ تعلیم ‘ اور زندگی کے دیگر تمام معاملات میں صنف مخالف کی طرح یکساں طور پر اپنی راۓ کے اظہار اور عمل درآمد کے مواقع فراہم کیۓ جا سکیں ۔۔جب تک دنیا بھر کی خواتین پر اعتماد اور محفوظ نہ ہوں گی معاشرےکی بنیادیں مظبوط نہ ہوں گی ۔۔۔
بقول علامہ اقبال
ہے کوئ ہنگامہ تیری تربت خاموش میں
پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں ۔۔۔
شہلا خضر