میری بیٹی
جویریہ سعید کی بہت اعلیٰ تحریر👑🏆
میری ایک ہی بیٹی ہے۔ اسے بہن کا بہت شوق تھا۔ جب چھوٹی تھی تو ایک روز اس نے مجھ سے کہا۔
“مما اتنی ساری لڑکیاں آپ کو جویریہ باجی کہتی ہیں۔ میں بھی آپ کو جویریہ باجی کہہ لوں؟ ہم پریٹینڈ کریں گے آپُ میری بہن ہیں۔ “
لڑکیاں ویسے ہی میری جان ہیں ۔ سب اپنی بیٹیاں لگتی ہیں۔ یہ بیٹی تو میری شہزادی ہے۔ میں نے اس سے ہمیشہ مزیدار سا تعلق رکھا۔ سب ہی ماؤں کی طرح اسے سجانا تیار کرنا۔ گلابی ، بنفشی رنگوں کی اشیاء لینا۔ اس کے لئے گڑیا کا گھر اور اس کا سامان اتنے شوق سے لینا اور تیار کرنا کہ میرے میاں کہتے تھے مجھے لگتا ہے آپ یہ سب اپنے لیے کرتی ہیں کیونکہ آپ کو خود گڑیاؤں کا بہت شوق ہے۔ اس کی ہر شے میں نسوانیت ہو۔ یہی میرا شوق تھا۔
خود میں جب کم عمر تھی تو مجھے لڑکی ہونے سے بہت چڑ تھی۔ میں جہاد پر نہیں جاسکتی تھی۔ مجھے لمبے بال، چٹیا، لڑکیوں جیسی باتیں ، لڑکیوں کا لڑکوں کی باتیں کرنا، میک اپ، رومانی ڈرامے ، شرمانا، ان سب سے الجھن ہوتی تھی۔ مگر اللہ نے مجھے لڑکی بنایا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ سے میں خفا نہیں ہوسکتی۔ ان کی ہر بات ٹھیک ہوتی ہے۔ اس لیے گذارا رہا۔ البتہ شادی کے بعد ، بہت کچھ مطالعہ، بہت کچھ فیلڈ ورک کرنے اور بچوں کی امی بننے پر مجھے اپنے عورت ہونے پر پہلے اطمینان اور پھر فخر ہونے لگا۔ اللہ تعالیٰ کو میں عورت ہوکر بھی پیاری لگتی ہوں بھئی۔ عورت سے وابستہ جو بھی احساسات ، جذبے اور عادتیں ہیں ان میں کوئی شرم کی بات نہیں ۔ اللہ نے ہمیں ایسا ہی پیارا بنایا ہے۔ مجھے کوئی شوق نہیں لڑکا بننے کا۔
تو اللہ نے جب بیٹی دی ، تو پہلے دن سے میں نے اس کو یہی احساس دلایا کہ لڑکی ہونا کتنا اچھا ہوتا ہے۔ اپنی جن جسمانی اور شخصی عادات سے ہم چڑتے ہیں ، تو اس لئے چڑتے ہیں کیونکہ ہم مردانہ عادات کوبہتر سمجھتے ہیں۔ مگر مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی جگہ کائنات کے حسن اور اس کے نظام کے لئے اہم ہیں۔
لڑکی کی خوبصورتی کے لئے مخصوص نقش، جلد کی رنگت ضروری نہیں۔ ان کی نسوانیت، معصومیت، پاکیزگی اور اعتماد ان کا حسن ہوتی ہے۔
بہت چھوٹی عمر سے میں اس سے ایسی باتیں کرتی تھی۔ وہ پیاری ہے۔ اپنی سانولی رنگت کے باوجود بے حد حسین ہے۔ اس کی ہنسی، شرارتیں اس کا سب پیارا ہے۔
مما ہم پر جمعہ اور جماعت کیوں فرض نہیں؟
میں سرگوشی کرکے کہتی ۔
اللہ نے ہم کو آسانی دی ہے نا۔ اب دیکھو کبھی کبھی تو جماعت کا دل ہوتا ہے ہر روز تو نہیں ہوتا۔ پھر مما کو کھانا بھی بنانا ہے ۔ اب اگر سب جماعت کو نکل جائیں تو گھر آکر آپ نے بریانی مانگنی ہے وہ میں کب بناؤں؟ میں دو دو کام نہیں کرسکتی بھئی۔ میرے لئے آسان ہے کہ نماز پڑھتی جاؤں ساتھ بریانی بھی پکاتی جاؤں۔
وہ خوش ہوجاتی ۔ کھلکھلا کر کہتی
اللہ تعالیٰ کتنے اچھے ہیں نا۔
مما امامت کیوں نہین کرسکتی؟
مما عورت نبی کیوں نہیں بنی؟
میرے بچے ! کار نبوت کے لئے در در پھرنا پڑتا ہے، پتھر کھانے ہوتے ہیں، ہر وقت انسانوں کی بدترین مخالفت اور بدتمیزیوں کے نشانے پر رہنا پڑتا ہے۔ ہزاروں لوگوں سے معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ تمہیں لگتا ہے نبوت میں۔ بڑی عزت سے تخت پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ آکر پاؤں چومتے ہیں؟ نہیں میری جان ! نبوت میں تو طائف ہوتا ہے، احد۔ اور بدر ہوتے ہیں، تہمت لگتی ہے، اونٹ کی اوجھ اور قتل کے منصوبے جھیلنے ہوتے ہیں۔ گالیاں اور الزام سننے پڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہم کو اتنا برداشت کرنے کا مکلف نہیں بنایا۔ لیڈر شپ کے اور بھی رول ہیں۔ جو عورت کرسکتی ہے۔
اس کے لب ہنستے اور آنکھیں آنسوؤں سے جھلملاتیں۔ وہ کہتی۔
مما مجھے اللہ تعالیٰ بہت پیارے لگتے ہیں۔
میرے میاں لڑکیوں کے معاملے میں بہت شرمیلے ہیں اور محتاط ہیں مگر بیٹی کے ساتھ مسلسل نخرے ، ہنسی مذاق کرتے۔ مجھ سے لڑائی ہو تو فورا بیٹی سے پارٹی بنالیں گے۔ مگر میں نے انہیں کہہ دیا تھا پردے اور حیا کے معاملات کی تربیت آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ پہلے میں خود سلیقے سے سکھاؤں گی۔ پھر آپ کو جو کہنا ہو کہیں۔
میری بیٹی کہتی۔ مما میں اسکول میں واحد ہوں اسکارف میں۔ اگر میں جم جاتے ہوئے حجاب نہ پہنوں؟
میں کہتی ۔ آپ پر فرض نہیں آپ نہ بھی پہنیں۔ لیکن لوگوں کے خوف اور شرم سے نہ اتارنا۔
وہ کہتی، مما اگر میں پینٹ کے ساتھ ٹی شرٹ پہن جاؤں۔
میں کہتی بالکل ٹھیک ہے ۔ ایک اسکارف آف ڈے مناتے ہیں ۔ آپ بھی نہ پہنو اور میں بھی ایک دن چھٹی کرتی ہوں۔
ایک روز میں بھی ایسے ہی لباس پہن لیتی ہوں دونوں چلتے ہیں شاپنگ کرکے آتے ہیں۔
نہیں مما! آپ نہیں!
کیوں بیٹا۔
پھر بات اس کو سمجھ آجاتی ۔ جو چیز وہ مجھ میں اس لئے نہیں دیکھنا چاہتی کہ وہ ان اپروپرئیٹ ہے ، وہ اس کے لئے بھی ان اپروپرئیٹ ہوگی نا۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کی پیاری مما کا جسم بال خوبصورت چہرہ نامحرم دیکھیں ۔ مما بھی نہیں چاہتیں کہ ان کی اس قدر حسین بیٹی ایسا لباس پہنے۔
میں نے کبھی سختی نہیں کی۔ جب دیکھا کہ اس کا موڈ بات سننے کا نہیں۔ تو اصرار نہیں کیا۔ اسے کرنے دیا۔ میاں کا ہاتھ پکڑ کر روک دیا۔ میں اسے زبردستی اور قید کا احساس نہیں دینا چاہتی۔
تھوڑی سی ناہموار سڑک کے علاوہ مجھے زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔
میں اسے دیکھ دیکھ کر جیتی ہوں۔ وہ تو میرا پرتو ہے۔
میری طرح پیچیدہ سوالات اور موضوعات میں دلچسپی لیتی ہے۔ باتونی ہے۔ کسی کا دل نہیں توڑ سکتی۔ بھائیوں پر حکم چلاتی ہے۔ ان سے لڑتی ہے۔ ابو سے بحث کرتی ہے۔ مگر فرمائشیں ساری مجھ سے کرتی ہے۔وقت پڑ جائے تو سارا کھانا پکا کر بھائیوں کو کھلا بھی دیتی ہے۔ مگر سو مرتبہ تعریفیں چاہتی ہے۔ اور جب موڈ نہ ہو، تو مجھے پڑھنا ہے کہہ کر کمرے میں گھسی رہتی ہے۔ اس کو ہر آنٹی اچھی لگتی ۂیں۔ ہر لڑکی سے گھل مل جاتی ہے۔ اس کو آرٹ فلمیں پسند ہیں۔ قرآن کریم پر ڈسکشن کرتے میری طرح ہنستی اور روتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں میری طرح باتیں کرتی ہے۔مجھ سے پوچھتی ہے اسلام کے ساتھ فلسفہ پڑھ سکتے ہیں؟ اس کو جاب نہیں کرنا۔ ہاؤس وائف بننا ہے۔ اس بات پر میرے میاں پریشان ہوئے تو میں نے یاد دلایا کہ عجیب بات ہے۔ ۔ سنا ہے مسلمان مرد اپنی عورتوں کو محصور رکھتے ہیں، یہاں آپ کی بیٹی ہاؤس وائف بننا چارہ رہی ہے تو آپ کو پریشانی کیوں ہورہی ہے؟ یہ تو اچھی بات ہے۔
مگر میں نے اسے سمجھایا کہ پڑھائی اور محنت سے بچنے کے لیے یہ خواب نہ دیکھو۔ پڑھائی اور محنت ہر حال میں ضروری ہے۔ چاہے آپ جاب کریں یا نہ کریں۔
ناولُ پڑھتی ہی نہیں ہے ان کو سجا سجا کر خزانے کی طرح رکھتی ہے۔ میری طرح گھنٹوں اپنی دوستوں کی باتیں اور ان کی تعریفیں کرسکتی ہے۔ ہم کتنی مرتبہ بس یہ باتیں کرتے رہتے ۂیں کہ اس کی فلاں دوست میں اور مما کی فلاں دوست میں کیا کیا خوبیاں ہیں۔
ہم لانگ ڈرائیو پر، صوفیوں میں دھنس کر گھنٹوں قرآن کی سورتیں ، اسلامی تاریخ، سیاست، عالمی سیاست۔ جہاد ٹرینڈز پر باتیں کرتے ہین، میں فلموں کے کرداروں کی باریکیاں بتاتی ہوں اور وہ توجہ سے سنتی ہے۔ میں اس کو اقبال پڑھاتی ہوں اور کبھی تین تین دن تک چند جملوں کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی۔
یہ سب ہے مگر وہ کہتی ہے ۔ میں میں ہوں مما۔ اور میں مسکراتی ہوں۔ اس عمر میں بچے اپنی شناخت چاہتے ہین ۔ اس دنیا مین ان کا اپنا مقام ۔ وہ صرف میرا ضمیمہ، میرا پرتو کیوں بننا چاہیں گے؟
میں ماں ہوں ڈانٹتی بھی ہوں۔ مجھے لگے کہ باؤنڈری کراس ہورہی ہے تو سخت ہوجاتی ہوں ۔ مگر جب پریشان ہوں تو اپنے بیٹوں بیٹی کے پاس جاکر کہتی ہوں مجھے تسلی دو۔
بچے چھوٹے تھے تب بھی اور اب تو ٹین ایج ہیں تو مجھے بہت اچھی نصیحت یا تسلی دے سکتے ہین۔ میاں سمندر پار ہوتے ہیں تو یہی بچے میرے امی ابو بن جاتے ہیں۔
اپنے ابو کو فون پر کہتی ہے
آپ کی وائف ہیں ۔ آپ خیال نہیں رکھتے تو سارے نخرے مجھے دکھاتی ہیں۔ اتنا تنگ کرتی ہیں۔
میں نے اسے کہا ڈرائیونگ ٹیسٹ دو۔ اس نے کہا میں ڈرائیونگ نہیں کرسکتی۔ میں نے کہا سب کرسکتی ہو۔ کروگی۔۔ میں اسےتحریری ٹیسٹ دلانے گئی ۔ جب وہ پاس ہوئی تو وہیں سینٹر میں
گلے لگالیا۔ اس نے شرما کر پوچھا۔ مما آپ تو ڈرائیو کرتی ہین یہ تو صرف تحریری ٹیسٹ تھا۔ آپ کے لیے اس میں کیا بڑی بات۔
میں نے اس سے کہا۔ مگر تمہارے لیے تو آج بڑا دن ہے، تم نے تو پہلی مرتبہ پاس کیا ہے۔۔اس نے ہنس کر کہا میں تو صرف بھائی جان اور دوستوں کو دکھانے کے لیے لے رہی ہوں۔ اور میں بے اختیار ہنس دی۔
میں ہر وقت بچوں سے لڑتی ہوں۔ یہی میری تفریح ہے۔ گھر میں اسی وجہ سے شور ہوتا ہے ۔ زندگی سنائی دیتی ہے۔ لیکن پھر مجھے لگتا ہے کہ کہیں محبت اور شرارت میں کہی بات کو وہ سنجیدہ نہ لے لیں۔ کیونکہ یہ بچے ہیں۔ پھر میں جاکر کہتی ہوں۔ آج میں تم سے جھگڑ رہی تھی، وہ تو مذاق تھا۔ تم کو پتہ ہے نا، مجھے تمہاری ہر بات پسند ہے۔ میں تم کو ایسا ہی چاہتی ہوں۔ اپنے آپ کو بدلنا نہیں۔
اس کو پتہ ہے پھر بھی اس کے چہرے پر خوشی دوڑ جاتی ہے۔ نہایت خوش ہو کر شرماتے ہوئے مجھ سے کہتی ہے
واقعی مما؟
یہ اتنی مرتبہ ہوتا ہے اور اس کو پھر بھی ہر مرتبہ پوچھنا ہوتا ہے کہ وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ میں اس سے خوش ہوں۔ اس کے ہونے سے میری تنہائی میں رونق رہی۔ وہ حوصلہ دیتی ہے۔ اس کا بے فکری اور کبھی سمجھداری ، اس کا بے تحاشا بولنا۔اس کی شیخی خوری، بھائیوں پر حکم چلانا ۔۔ یہ سب مجھے مسرور رکھتا ہے۔
میرے بیٹے بہت شریف النفس ، خاموش طبع اور معصوم ہیں۔ مگر جب یہ سب ہوتے ہین تو لڑائیاں اور باتیں اور شور رہتا ہے ۔
بیٹی اللہ کی کتنی پیاری نعمت ہے۔ کوئی بیٹیوں پر کیسے سختی کرسکتا ہے۔ ان کے ہونے سے کیسے ناخوش ہوسکتا ہے۔
اللہ کریم ان سب کو پرہیز گاروں کا امام بنائے اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطافرمائے۔
JS