Skip to content

 

معذرت

 نیّر تاباں

نیوفاونڈ لینڈ

جب گلٹ محسوس ہو، انا کو پیچھے رکھ کر معذرت کر لینا ہی بہترین ہے۔ منہ سے کہہ نہ سکیں تو بعض اوقات جھکے سر کے ساتھ ہاتھ تھام لینا بھی بہت ہو جاتا ہے۔ کوئی دور ہو یا الفاظ میں کہنا مشکل لگے تو لکھ کر بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن کچھ چیزیں اہم ہیں۔

معذرت جب کیجیے تو دل سے۔

معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے کہا گیا سوری دیرپا نہیں ہوتا۔ اسی لئے بہن بھائیوں کی لڑائی میں انہیں فورا ایک دوسرے کو سوری کہنے پر مجبور کرنا میرے دل کر نہیں لگتا۔ صرف بہن بھائی ہی نہیں، خود والدین بھی بچوں سے کہلوا کر معافی منگواتے ہیں۔ زوجین میں بھی ایک دوسرے کو کارنر کیا جاتا ہے۔ نہیں! سوری اسی صورت میں جب دل رضامند ہو، ورنہ مکالمہ بہتر ہے۔معذرت کہئے تو اپنی غلطی کی مکمل ذمہ داری لیجیے۔ اگر مگر، لیکن ویکن استعمال کر کے اسے ہلکا نہ کریں۔ توجیحات کے ساتھ پیش کیا گیا سوری دل سے نہیں ہوتا۔ مکالمے اور معذرت کو باہم یکجا نہ کریں۔

معذرت کرتے وقت آپ کے جملوں سے یہ تاثر جانا چاہئے کہ آپ واقعی شرمندہ ہیں۔” مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔” “مجھے احساس ہے کہ میری بات نے تمہیں ہرٹ کیا ہے۔”
“مجھے تمہاری فیلنگز کا احساس ہونا چاہیے تھا۔”
:اچھا، مجھ سے کہو میں کیسے اس سچویشن کو بدل سکتا ہوں؟ میں کیا کروں کہ تمہارے دل سے خفگی ختم ہو۔” معذرت کر کے کسی کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ جس درجے کی تکلیف دی ہو، اسی درجے پر انہیں اس تکلیف کو پروسیس کرنے کا وقت دیجیے۔

سوری کہنے کے فورا” بعد یہ توقع رکھنا کہ اب فوری طور پر سب کچھ پہلے جیسا ہو جانا چاہیے، یہ غلط ہے۔ جب غلطی کریں تو آئیں بائیں شائیں کر کے معاملات ہینڈل نہ کریں۔ جو غلطی ہے اسے فیس کریں نہ کہ ڈنر اورشاپنگ کروا کے سمجھا جائے معاملہ حل ہو گیا۔ زخم کی صفائی ہی نہیں کی تو جتنا بھی خوبصورت بینڈ ایڈ لگا دیں، وہ زخم خراب ہی ہو گا۔

معذرت کیجیے تو نبھائیے۔ معذرت بس جھوٹے سچے کچھ الفاظ نہیں ہوا کرتی، یہ ایک مکمل ایٹیٹیوڈ ہے۔ معذرت کرنے کو عادت نہ بنائیے۔

کوئی انسان اگر آپ کی معذرت قبول کر رہا ہے تو بار بار اسے تکلیف پہنچا کر بار بار معذرت کرنے کو اپنا شعار نہ بنائیے۔ ۔آخری اہم بات! بغیر وجہ کے معذرت کرنے کی عادت ترک کیجیے۔
I’m sorry to say….
سے شروع ہوتے جملوں کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔

اگر آپ بات کہنے پر اتنے شرمندہ ہیں تو نہ کہیے۔ اور اگر بات کہنے لائق ہے تو آپ معذرت خواہ کیوں ہیں؟ اسی طرح تمام برا بھلا کہہ دینے کے بعد آخر میں “کہا سنا معاف” جیسا جملہ قطعی بے مقصد ہے۔ معافی وہی ہے جو دل سے نکلتی ہے اور عمل میں جھلکتی ہے۔