Skip to content

مدرذ ڈے اسپیشل 

ازقلم ۔شہلاخضر

پاکستان

ماں کا لمس ‘ ماں کی مہک ‘ ماں کا آغوش ‘ یہ لفظ کس قدر انمول ہیں ‘ ان کی قدرو قیمت ‘ ان کی مٹھاس ‘ ان کی طلب ہر زی نفس کی روح میں پیوست ہے۔ماں ہی وہ ہستی ہے جس کے دم سے اشرف الخلائق کو دوام ملا ۔جس نے تشنگئی حیات کا جام پی کر بھی مسکرا کراپنی ننھی تخلیق کو سیراب کیا ۔گھر کا سکون ماں کی مسکراہٹ میں پنہاں ہے ۔ماں کی اداسی اولاد کے سارے جہاں کو اداس کردیتی ہے ۔
ہم پانچ بہن بھائیوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ایک کے بجاۓ دو ماؤں کا پیار ملا۔میری والدہ اور میری نانی جنہیں ہم پیار اور ادب سے “بڑی امی” کہا کرتے تھے ۔مدرز ڈے کے موقع پر میں ان دونوں عظیم ماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتی ہوں ۔ ان کے لیۓ کچھ کہنا چاہتی ہوں۔
میری والدہ کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے “سوہدرہ”سے ہے ۔۔ نانا جو کہ پٹواری تھے ان کا انتقال میری والدہ کی اوائل عمری میں ہی ہو گیا ۔ہماری بڑی امی بہت جی دار خاتون تھیں ۔چودہ سال کی عمر میں سہاگن اور بیس سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں۔ نانا جان کے انتقال کے بعد بہت مشکل دور دیکھا ۔۔کم عمر تھیں سسرال والوں نے وراثت کے معاملات میں کافی ہیرا پھیریاں کیں ۔زمینیں ٹیوب ویل باغات . سب مقدمے بازی میں بک گۓ ۔ خاندانی حویلی کراۓ پر دینی پڑی۔کم عمر اور بہت خوبصورت تھیں ‘ کئ ہاتھ سہارا دینے کے لۓ بے تاب تھے۔رشتے دار بھی ہمدرد بن کر ان کی بیٹیوں کا بوجھ” آپس میں بانٹنے کو تیار تھے ۔پر بڑی امی نے دل مضبوط کیا اور اپنی چاروں بیٹیوں کی بہتر زندگی کے لیۓ تنہا یہ فریضہ انجام دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی چاروں بیٹیوں کو بڑی بہادری سے پالا اور تعلیم دلوائ ۔ میری والدہ نے مڈل کلاس تک تعلیم حاصل کی ۔اس وقت کے رائج تمام سگھڑاپے کے ہنر سیکھے ۔جن میں کشیدہ کاری ‘ کروشیہ اونی بنائ وغیرہ شامل ہیں۔
میرے والد آرمی میں بحیثئیت سول اینجینئیر تعینات تھے ۔وہ ایک نہائیت قابل انسان تھے ۔خاندان میں سب ان کے اخلاق و اطوار اور عقل و فراست کے گرویدہ تھے۔جب ان کی پہلی زوجہ کا انتقال ہوا تو چار بچوں کے والد تھے۔
ہماری بڑی امی ‘ اس زمانے میں میری والدہ کے لۓ رشتے دیکھ رہی تھیں۔یہ اس دور کی بات ہے جب شرافت اور وضع داری دیکھ کر رشتے طے کر دیۓ جاتے تھے ۔خاندان کے سبھی بڑوں نے اور خود ہماری بڑی امی نے اتنے قابل اور نیک صفت انسان کو دامادی میں قبول کرنا باعث شرف سمجھا۔
یوں میری والدہ اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہو کر کراچی رخصت ہوئیں۔اور بن ماں کے چار بچوں کو سینے سے لگالیا۔ماں بن کر انہں ممتا کی چھاؤں تلے سمیٹ لیا۔اسی دوران اوپر تلے ہم تین بہن بھائ بھی دنیا میں آچکے تھے۔ رضاۓالٰہی سے میری دادی جان کا انتقال بھی اس دوران ہوگیا ۔ہماری اکلوتی پھوپھو بھی اس وقت نو عمر تھیں ۔دادا ابو اور پھو پھو بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے ۔
گھر کے کام کاج کے لیۓ اردلی اور میڈ کی سہولت آفس کی جانب سے میسر تھی ۔پر بڑے بچوں کے اسکول کی پڑھائ اور شیر خوار بچوں کی دیکھ بھال ‘ تنہا گھر اور سات بچوں کی دیکھ بھال بے حد دشوار ہونے لگی ۔ان کی صحت دن بہ دن خراب ہونے لگی ۔ہماری بڑی امی بیٹی کی محبت میں بے چین تھیں ۔آخر کار انہوں نے کراچی شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔والد صاحب بڑی امی کی بے حد عزت کرتے تھے ۔وہ بہ ضد تھے کہ کراچی میں الگ گھر لے کر رہنے کے بجاۓ میری والدہ کی طرح بیٹی کے گھر رہیں ۔
بڑی امی نے داماد کی درخواست پر میری والدہ کی صحت اور گھریلو امور کی مشکلات کو دیکھتے ہوۓ بلآخر بیٹی کے گھر رہنے کا فیصلہ کیا۔
اور اس طرح وہ پیارا سا مثالی گھرانہ وجود میں آیا کہ جہاں سب یوں ایکدوسرے کا سہارا بنے کہ لوگوں کو پہچاننا مشکل تھا کہ حنیف صاحب کے گھر دو ماؤں کی اولاد ان کی ایک نانی امی اور تین خالا ئیں اور ایک پھوپھو سب ایسے اتفاق و محبت سے اکھٹےرہ رہے ہیں’ جو قابل رشک ہے۔
ہمارا بچپن والدہ اور بڑی امی دونوں کی ممتا کے ساۓ میں گزرا ۔والدہ بے انتہاء نرم دل ہیں ۔ہماری شرارتوں پر صرف سرزنش اور ہلکی پھلکی ڈانٹ پر اکتفاء کرتیں۔بے حد سخی اور حساس طبیعت تھیں ‘ ہم بچے ان کی اس نرمی سے خوب فائدہ اٹھاتے اور والد صاحب کی ڈانٹ سے بچنے کے لیۓ انہیں ڈھال بنا لیتے ۔ بڑی امی ‘ زندگی میں انتہائ ڈسپلن کی قائل تھیں۔اور ان کی شخصئیت بہت رعب دار تھی ۔انہوں نے ہماری تربییت فوجی طرز پر کی ۔گھر میں سونے جاگنے ‘ پڑھنے لکھنے اور سیر سپاٹے کے لیۓ ٹایم ٹیبل سیٹ تھا ۔ہمارے بڑے بہن بھائ جو کہ دوسری والدہ سے تھے وہ بھی بڑی امی کو اپنی نانی کی طرح عزت دیتے تھے ۔میری دونوں خالائیں بل ترتیب میری پھو پھو اور میری بڑی باجی کی بیسٹ فرینڈ بھی تھیں۔سب مل کر گھر کے کام میں بھی ہاتھ بٹاتے سلائ کڑھائ اور بنائ سب مل جل کر کی جاتی ۔
سچ ہے ماں کا وجود گھر کے تمام افراد کی خوشیوں اور مسکراہٹوں کا ضامن ہے ۔
ہمارے والد صاحب 49 سال کی عمر میں ہی دل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر چل بسے ۔دادا۔ابو نہائیت ضعیف تھے اور تپ دق کے مریض تھے وہ جواں سال قابل بیٹے کی اچانک موت کا صدمہ برداشت نہ کر پاۓ اور جلد ہی وہ ان سے جاملے ۔والدہ بھی پے درپے صدموں سے ڈپریشن کا شکار ہو گئیں ۔انہیں کافی عرصے تک زہنی سکون کی دوا دینی پڑی ۔
بڑی امی ‘ نے زندگی کی آخری سانس تک اپنے عزیز از جان داماد سے کیا وعدہ نبھایا۔اس کٹھن اور صبر آزما دور میں ہم سب بہن بھائیوں ‘ خالاؤں اور پھوپھو کی تعلیم اور شادی تک انہوں نے ہر لمحہ ہماری پہرہ داری باپ کی طرح کی ۔آج وہ ہم میں نہی پر ہم سب اور والدہ ایک دن بھی انہیں نہ بھلا پاۓ ۔ہماری والدہ ہم سب کی خوشیوں اور محبتوں کا مرکز ہیں ۔ان کے دم سے ہماری زندگیوں میں رحمتوں کی چھاؤں ہے ۔
اللہ پاک ہم سب کی ماؤں کو سلامت رکھے’ اور ہمیں ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماے ‘أمین “