مانگنے کا دن
افشاں نوید
پاکستان
اان کی چوکھٹ پہ تو کاسہ ہی بھلا لگتا ہے۔۔۔۔
اس وقت میدانِ عرفات میں لوگ پہاڑیوں پر چڑھے رو رہے ہیں۔
جبلِ رحمت پر ہاتھ پھیلائے گڑگڑا رہے ہیں۔
آج صرف مانگنے کا دن ہے۔
ہماری زندگی میں کتنا قیمتی ہے وہ دن جب دینے والا کہتا ہے کہ آؤ,آج بس مانگنے آؤ۔
اپنی حاجتوں کی پوری فہرست لے آؤ، پھر میری شانِ کرم نوازی دیکھنا۔
کون سا ایسا دربار ہوگا جہاں مانگنے والوں کو نہ صرف ٹھکرایا نہیں جاتا,پھیلے ہاتھوں پر حقارت کی نگاہ نہیں ڈالی جاتی, بلکہ مانگنے والے ہی معتبر ہیں,ان سے وعدہ ہے کہ آج کے دن کوئی جھولی خالی نہیں لوٹائی جائے گی۔۔
پچھلے برس کے کیلینڈر کا وہ دن۔۔۔۔۔
میرے بیٹے کا ہم عمر وہ گھبرو عرب نوجوان,میرے برابر میں کھڑا تھا,بیت اللہ کو تکتا رہا۔
ریلنگ تھامے تکتا گیا اور پھر۔۔۔۔۔ پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
جیسے ماں سے مدت بعد مل کر پہلے بیٹا ماں کا ہاتھ تھامے اسے دیکھتا رہتا ہے پھر گلے لگ کر تڑپ کر روتا ہے۔
یہ قرب کے لمحے بھی قیامت سے کیا کم ہوتے ہیں!!!
میں سوچنے لگی میں اس طرح روؤں تو بات بھی بنتی ہے اس کم عمر نوجوان نے ایسا کیا گناہ کیا ہوگا کہ بلک بلک کر رورہا ہے۔
آج جبلِ رحمت اور میدانِ عرفات میں لوگوں کو ہاتھ پھیلائے تڑپ کر روتے دیکھ کر میں یہی سوچنے لگی کہ یہ تو اللہ کے نیک بندے ہیں جنھیں اللہ نے اپنا مہمان بنایا ہے۔کیسے بلبلا کر رورہے ہیں۔۔
ہاں! رونے کے لیے گناھوں کا یاد کرنا لازم نہیں رونا تو اس کی دی ہوئی نعمتوں پر بھی آنا چاہیے۔
اس نے اپنی مرضی سے ہمیں بھیجا اور پھر کیسے ہمارے ناز اٹھائے۔۔ہمیں ہماری طلب بلکہ ہمارے ظرف سے زیادہ دیا۔آسمان سے زمین تک بے حد حسین کائنات,نعمتوں سے بھری دنیا, اجرام فلکی بنائے۔۔
۔۔۔۔۔ اور کہا یہ سب ہیں تمہارے۔۔۔۔۔
سب کچھ دے کر بس اتنا سا مطالبہ تھا کہ دل نہیں لگانا ہے کیونکہ واپسی کا ٹکٹ دے کر بھیجا جارہا ہے۔
زندگی کے بارے میں یوں سوچنا دشوار لگتا ہے کہ غروب ہوتا سورج کہ کر گیا ہے کہ واپسی کا ایک دن کم ہوگیا۔
میدان عرفات بنیادی طور پر تو اس واپسی کے دن کی یاد دہانی ہی ہے دوسفید کپڑوں میں۔
ملاقات کی تیاری کی وسل کہ جلدی بیگ تیار کرلو۔۔۔
اور ہاں اس سوال کی تیاری ضرور کر کے آنا کہ اپنے مسلمان ہونے کا کم سے کم بھی کچھ حق ادا کیا؟؟
بچوں کو پالا پوسا,اچھا کھلایا پلایا ,بہترین تعلیم,عمدہ گھر بنانے میں عمر گزر گئی۔۔
اچھا کیا۔۔۔
یہ بتادو کہ ان کو تعلیم اچھا مسلمان بنانے کے لیے دلوائی یا اچھی ملازمت کے لیے۔۔۔
اچھا معیار زندگی پا کر انھوں نے نماز روزہ کرلیا تو یہی دین کی خدمت تھی کیا؟؟
ہمارے اسلاف جنھوں نے دین کی خدمت کی وہ اچھا کمانے، اچھا گھر، اچھے معیار زندگی سے پرے کی چیز تھے۔۔
امام ابوحنیفہؒ سے شاگرد نے کہا حضور اتنا دماغی کام اور کھانے میں صرف سادہ روٹی,کچھ سالن لے لیا کریں۔
بولے “بات تو درست کی تم نے۔۔۔اچھا کل سے روٹی کے ساتھ سرکہ دے دینا۔”
پھر رونا توبنتا ہی ہے۔۔
ہاں آج کے دن رونے کو تو یہی بہت ہے کہ۔۔۔۔۔۔
اسلام غریب ہوگیا اور ہم امیر۔۔۔
اسلام اجنبی ہوگیا اور ہم پر مشہور ہونے کی دھن سوار۔۔۔
٩ ذی الحج ١٤٤٤ھ