Skip to content

 نیر تاباں,  نیوفاونڈ لینڈ

قرآن اور ہم

 

جب ہم بڑے ہو رہے تھے، قرآن پاک کو بہت عزت دی جاتی تھی۔ اوپر جزدان میں رکھا جاتا۔ کرسی رکھ کر اتارا جاتا۔ بہت احتیاط کی جاتی کہ کمر اسکی طرف نہ ہو جائے۔ ہوتے ہوتے یوں ہوا کہ احترام تو بہت ہوا لیکن کون اتنی عار کرے کہ کرسی رکھ کر روز قرآن اتارے۔ جو بہت کمٹڈ ہوتا پڑھ لیا کرتا، نہیں تو کچھ کچھ عرصے بعد ختمِ قرآن کے مواقع آتے تھے۔ سب خواتین مل بیٹھتیں، قرآن بھی پڑھا جاتا، بعد میں گپ شپ اور کھانا پینا بھی ہو جاتا۔ یا پھر کسی کے انتقال پر، یا رمضان اور عبادت کی راتوں میں قرآن کی باری آتی۔

وقت نے کروٹ لی۔ سب کو سمجھ آنے لگا کہ خالی خولی ثواب کا کیا کریں جب قرآن کے شروع میں اللہ اسے خود بھی ھدی اللمتقین کہہ رہے ہیں۔ کیسے بنیں متقی، کیسے پائیں ہدایت؟ اب قرآن سے دوستی ہونے لگی۔ وہ جزدان سے تھوڑا نیچے فریج تک آیا۔ ایڑیاں اونچی کیں اور لے لیا۔ پھر وہاں سے کچن ٹیبل تک، سائڈ ٹیبل تک، کافی ٹیبل تک۔ وہ گھر کا حصہ بننے لگا۔ اس کی طرف پیٹھ نہ کرنے کا مطلب جانا گیا کہ اسکی تعلیمات سے منہ نہ موڑو۔ اسکو اونچا رکھنے کا مطلب پتہ چلا کہ اسکے احکامات کو اپنی خواہشات سے اوپر رکھو۔ وہ بیڈ ٹائم سٹورئ بک بنتا گیا۔ کہاں کہ ایک لفظ قرآن پر نہ لکھا جاتا، کہاں اب رنگا رنگ ہائی لائٹر لیکر اس پر اہم آیات جو دل کو لگی ہوں، انہیں سجانا سنوارنا شروع کیا گیا۔ حاشیے میں نوٹس قلمبند ہونے لگے۔ ہاں نقصان یہ ہوا کہ ایک دوسری انتہا نے جنم لیا۔ خواتین کے ملنے جلنے تو جاری رہے لیکن اب کبھی ختمِ قرآن نہ رکھا جاتا۔ یہ سوچ تقویت پانے لگی کہ اگر سمجھ نہیں آ رہا تو پڑھنے کا کیا فائدہ، چلو پھر یہ پڑھنا رہنے ہی دو، حالانکہ حروفِ مقطعات کی مثال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ نہیں بھی مطلب سمجھ آتی تو بھی ہر حرف کی دس نیکیاں تو ملتی ہی ہیں۔ عبادت کی راتوں کا پتہ چلا کہ ان کے لئے عبادات مخصوص نہ جائیں، تو عام راتوں کی عبادات بھی کم ہو گئیں۔

رمضان عبادات کا مہینہ ہے۔ قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن کے احترام کیساتھ اس سے ٹوٹا ہوا تعلق بنانے کا مہینہ ہے۔ دورہ قرآن کو ایک کریش کورس سمجھ کر کریں۔ ایمان بوسٹر سمجھ کر کریں۔ پورا نہیں ہوتا تو آدھا کریں۔ لائیو نہیں ہوتا تو ریکارڈڈ سنیں۔ جایا نہین جاتا تو آنلائن کریں۔ آنلائن نہیں موڈ بنتا تو جانے کی ہمت کریں۔ بس کر لیں۔ تھوڑا سا ہی سہی! خود کو رمضانی مسلمان سمجھ کر سرزنش نہ کریں، کسی اور کو رمضانی مسلمان سمجھ کر مذاق نہ اڑائیں۔ کوئی ایک آیت ہی کیا خبر ایسا لطف دے کہ قرآن سے تعلق کی بنیاد بن جائے۔ اسے سمجھنے کی نیت سے بھی پڑھیں، ثواب کے لئے بھی۔ اپنے پاس ہائے لائٹرز رکھیں، سٹِکی نوٹس رکھیں۔ قرآن کو سجائیں، سنواریں، خوبصورت بنائیں۔ اسے یادوں کا حصہ بنائیں۔ اسے زندگی کا حصہ بنائیں۔ ان شا اللہ!