Skip to content

غم منا لیں

  • by

نیر تاباں

Newfoundland

کیا کیجے کہ پانے کے ساتھ ہی کھو دینے کا خوف بھی جا گزیں ہے۔ فریحہ نقوی نے اس خوف کو کیا ہی خوبصورتی سے اشعار میں عبارت کیا ہے۔

کھو دینے کا، دل بھرنے کا، تھک جانے کا خوف
ایک ترے ہونے سے چکھا کیسا کیسا خوف

تم تھے لیکن دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے تم
آنکھ کھلی تو بستر کی ہر سلوٹ میں تھا خوف

اس رستے پر مجھ سے پہلے کوئی نہیں آیا
ایک انوکھی سرشاری ہے، اک انجانا خوف

اسی لیے میں سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتی ہوں
اتنی بلندی سے رہتا ہے گر جانے کا خوف

وقت کی آندھی لے اڑتی ہے کیسے کیسے لوگ
سوچ کے دل کو خوف آتا ہے، اچھا خاصا خوف

فرض کریں کہ کھو دینے کا خوف سچ ثابت ہو جائے؟ وہ انسان کھو جائے جس کے لئے دل کے سب در وا کیے تھے؟

دیکھیے، انسانی جذبات ریموٹ کنٹرول سے آن آف نہیں ہوتے۔ جیسے جذبات پنپنے میں وقت لگتا ہے، وہیں ان کے فورا ختم ہونے کی توقع بھی غلط ہے۔ مصروفیات بڑھا کر، حقیقت سے نظریں چرا کر، خود کو سکرین میں غرق کر کے غم بھلا کیسے پروسیس کیا جائے؟ زخم کو ناسور کیوں بننے دیا جائے؟ غم ہے تو منا کیوں نہ لیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم پانچ مراحل میں وارد ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک ترتیب وار ان مراحل کا سامنا کرے گا، نہ ہی ہر مرحلے کا لگا بندھا وقت ہے۔ بہرحال غم کو پروسیس کرنے میں عام طور پر انسان شاک کی کیفیت سے موو آن کرنے تک ان مراحل سے گزرتا ہے۔

پہلا مرحلہ انکار کا ہے۔ حقیقت نظروں کے سامنے ہے اور دل اسے دیکھنے، سمجھنے، قبول کرنے سے مکمل انکاری ہے۔ “یہ کیسے ہو گیا؟ کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟” سوالات پے در پے حملہ آور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان ایک شاک کی کیفیت میں ہے۔زندگی کے کام چل رہے ہیں لیکن اندر ایک گہری چپ ہے۔

شدید دکھ کا سکوت ٹوٹتا ہے تو روح کے اندر ایک تلاطم جنم لیتا ہے۔ غصہ!
یہ غم کا دوسرا مرحلہ ہے۔ انسان خود سے خود ہی الجھتا جاتا ہے۔ کبھی حالات پر الزام دھرتا ہے، کبھی کسی انسان پر، اور کبھی خود پر ہی۔ الجھن ہے، چڑچڑاپن ہے، انگزائٹی ہے۔ اندر ہی اندر ایک پیچ و تاب ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔

الجھن کے ذرا ماند پڑنے پر انسان غم کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ اگر اور مگر کی ایک تکرار ہے جو سانس روکتی ہے۔ ‘کاش’ دن میں کتنی ہی بار انسان کا دامن پکڑ کر کھینچتا ہے۔ کبھی باؤنڈریز نہ بنانے پر الجھن ستاتی ہے، کبھی بروقت فیصلہ نہ کرنے پر۔ انسان سوچتا ہے کہ میں کچھ ایسا کر لیتا کہ نتائج مختلف ہوتے۔ مکمل انکار سے ہوتا ہوا اب وہ دھیرے دھیرے قبولیت کی طرف جانے لگتا ہے، لیکن حقیقت قبول کرنا آسان تھوڑی ہے۔ دل چٹختا ہے، روح تڑپتی ہے۔ دن میں کئی بار مرتا اور کئی بار جیتا ہے۔ اس مرحلے پر اسے جذباتی سہارے کی ضرورت درپیش آتی ہے کیونکہ وہ کسی کو اپنی بات کہہ دینا چاہتا ہے۔

تکلیف شدید تر ہوتی ہے تو غم کا چوتھا مرحلہ آتا ہے۔ ڈیپریشن!
اس مرحلے کا نام ‘ڈیپریشن’ ہے، لیکن یہ عرفِ عام والا ڈیپریشن نہیں۔
گزرے تین مرحلوں میں ہر طرح سے دیکھ لیا۔۔ مکمل انکار کر کے بھی، جل کڑھ کر بھی، اگر مگر کی توجیہات پیش کر کے بھی، لیکن حاصل وصول کچھ نہیں۔ روح تک اتری اس تھکن اور من بھر وزنی قدموں کے ساتھ زندگی کا سفر کیسے طے ہو گا۔ بے بسی ہے اور بے تحاشا ہے، گویا جوتوں میں کنکر ہیں اور پہاڑ سر کرنا ہے۔ تکلیف اپنی انتہا کو جا پہنچتی ہے۔

اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
؀لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

آخری مرحلہ قبولیت کا ہے۔ انسان جیسے تیسے یہ مان لیتا ہے کہ یہ سانحہ بیت چکا، یہی مقدر تھا۔ میرے تصور میں یہ وہ مرحلہ ہے جہاں آپ خود کو سینے سے لگاتے ہیں اور بہت دیر جدا نہیں کرتے۔ اپنی کمر پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے چلے جاتے ہیں جب تک کہ وہ تمام آنسو جو شروع کے مراحل میں اندر منجمد ہو گئے تھے، اس مرحلے میں بہہ نکلیں۔ بس خود کو ڈانٹیں مت۔ انسان ہونے کا مارجن دیں، غلطیوں کی اجازت دیں۔ اب موو آن کرنے کا وقت آن چکا ہے۔ آگے کی سوچیں کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے۔

غم کو مکمل پروسیس کرنے کے بعد ہی غالباً وہ کیفیت بنتی ہے جہاں شاعر کہہ اٹھتا ہے۔

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا