Skip to content

غزہ کا لہو پکار رہا ہے

  • by

Saima Sohail

Saskatchewan

اکتوبر ۷ کو بریکنگ نیوز آتی ہے، موسٹ پاپولر نیوز چینلز پر کہ اسرائیل پر حملہ ہو گیا ہے۔
حماس نے اسرائیل پرحملہ کر دیا ہے۔ راکٹوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ ۳۰۰ اسرائیلی فوت ہو گئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد زخمی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ ۲۳۲فلسطینی بہن بھائی بھی شہید ہوتے ہیں ، جس کی خبر فلسطینی ہیلتھ منسٹری دیتی ہےاور ۱۶۰۰ سے زائد زخمی ہوتے ہیں۔
وڈیوذ بھی ریلیز ہوتی ہیں کہ حماس نے اسرائیلی لوگوں کو اغوا کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی پرائم منسٹر پیشن گوئی دیتے ہیں کہ اب اک طویل اور مشکل جنگ شروع ہو گی، اور اک ملٹری کے سپوک پرسن نے اشارہ دیا کہ ملک پورے غزہ پرکنٹرول کرنے کی کوشش کرے گا۔
اکتوبر ۷، ۲۰۲۳ کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے جسے آج اک سال ہو گیا ہے۔
اسرائیل اس کے ساتھ ہی مسلسل بمباری ائیر اسٹرئکس کی شکل میں غزہ پر شروع کر دیتا ہے۔
مرے مظلوم بہن بھائی جو پہلے ہی کافی عرصے سے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے، وہ اب مکمل طور پر اک جنگ کی آہ بن گئے اور بن رہے ہیں۔
جی ہاں، یہ جنگ اکتوبر ۷، ۲۰۲۳ کو شروع نہیں ہوتی، یہ باقائدہ جنگ تو اب نظروں کے سامنے آرہی ہے، نکبة تو ۱۹۴۸ میں ہی گزر چکا ہے جہاں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال دیا گیا، ان کی جائیدادوں کو چھین لیا گیا، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔ ان کی ثقافت کو، ان کی شخصیتوں کو ، ان کے حقوق کو، ان کی عزتوں کو پامال کر دیا گیا۔
اور اب آخری صورت ان کو جڑ سے اکھاڑنے کی یہی نظر آئی کہ اس بہانے مکمل طور پر ان سے پیچھا چھڑوا لیا جائے۔
اس کے لئے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ پھر چاہے وہ الشفاء ہسپتال ، ناصر ہسپتال اور کئی میڈیکل ہسپتال، وہ سب کے سب تباہ و برباد کر دئے گئے۔ عام ریزیڈینشل بلڈنگز کو بمباری کر کے گرا دیا گیا۔ ساری یونیورسٹیوں کی بلڈنگز کو مسمار کر دیا۔
حماس کے حملے کے بہانے سے شروع ہو نے والی یہ یک طرفہ جنگ اک جینوسائڈ نہیں تو اور کیا ہے؟ اب کیا وجہ ہےکہ فلسطین کی طرف سے کوئی حملہ آور نظر نہیں آتا، صرف اسرائیل ہی ائیر سٹرائکس پر ائیر سٹرئکس کیے جا رہا ہے اور مسلمانوں کو سخت اذیتوں کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے جا رہا ہے۔
الشفاء ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر لوگوں کو دفنایا گیا۔ فلسطین کے مسلمانوں پر تشدد کے نشانات ان کی اموات کی گواہی بنے۔
کہیں بھوک وپیاس سے، کہیں بیماریوں سے، اور کہیں abusive assaults سے زندگی مرے بہن بھائیوں پر تنگ کر دی گئی۔
تشدد شہیدوں کی لاشوں کے مختلف کھلے ہوئے بکھرے ہوئےاعضاء کی صورت میں نظر آئے، ہند رجب کی گاڑی پر جب ۳۵۵ گولیاں برساکرسب فیملی ممبرز کو شہید کیا گیا اور آخر میں بچنے والی ۵ سالہ ہند رجب کو بھی شہید کر دیا گیا۔ معصوم اور بے ضرر بچوں اور عورتوں کو قتل کا نشانہ بنایا گیا۔
ہر راہ شہیدوں کے بہتے ہوئے خون کی کہانی بیان کرتی رہی۔پریس کے لوگوں کو شہید کر دیا جاتا رہا۔ ہر طرف رلتے ہوئے، روتے ہوئے بچے بھاگتے نظر آئے جن کے بڑے شہید ہو چکے تھے یا وہ بڑے جن کے بچے فوت ہو چکے تھے۔ کہیں وہ والدہ نظر آتی ہیں جو بچوں کے لئے کھانا لینے جاتی ہیں توپیچھے بچے شہید ہو جاتے ہیں، اور کہیں والد کے لئےخوشی آتی ہے بچوں کی پیدائش کی صورت میں، اور چار دن کے بعد والد جب ان کی پیدائش کی ریجسٹریشن کرانے جاتے ہیں تب پیچھے بچوں کی والدہ اور بچے شہید ہو جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات نظروں کے سامنے آئے جو صرف کہانیاں نہیں ہیں اور ان کو کہانیاں کہنا ان کا حق ادا نہیں کرتا۔ ان سب واقعات میں اک بات ، صرف اک بات جو مومنوں کو ان حالات میں آگے چلاتی رہی جب کہ ان کو ان کی موت ان کے سامنے نظر آ رہی تھی، وہ ہے اللہ کی یاد۔اس آزمائش میں ان کے دل صرف اللہ کی رضا کی طرف راغب ہیں۔
حسبنا اللہ ونعم الوكيل
“اللہ ہم کو کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔”
ان کی زبانیں اللہ کے ذکر سے تر تھیں اور تر ہیں، الحمد للہ۔ لیکن، آج ہم کہاں کھڑ ے ہیں؟ ہم اپنا حصہ اک Law Abiding Citizens ہوتے ہوئے کہاں ڈال رہے ہیں؟ مسلمان تو اک جسم کی مانند ہیں۔ جب جسم کا اک حصہ دکھتا ہے تو سارا جسم درد کرتا ہے۔
کیا مرے دل میں وہ درد ہے جو مجھےاپنے بہن بھائیوں کے لئے محسوس ہو رہا ہو؟ اور اگر وہ درد محسوس ہوتا ہے تو میں کیا کوشش کر رہی ہوں؟
اور پھر اللہ سے جواب دہی کا معاملہ بھی تو پیش آناہے۔ غزہ کے ساتھ ساتھ اب لبنان بھی اسرائیلی حملوں کا شکار ہو گیا ہے۔ اس کی وجوہات مختلف نیوز چینلز پر موجود ہیں۔ مرے سوچنے کا کام کہ میں کیا کر رہی ہوں؟ کیا مرے مسلمان بہن بھائیوں کا خون اتنا سستا ہو گیا ہے کہ اس کی کوئی وقعت اور اہمیت ہی نہیں ہے؟ آج اک سال کے بعد بھی میں اپنا حصہ اللہ کی رضا کے لئے اپنے بہن بھائیوں کے لئے کہاں ڈال دہی ہوں؟

References:
CNN/ BBC/ amp.theguardian /  who.int