Skip to content

عید یوم تشکر

  • by

Riffat Iqbal

Mississauga

اللہ کی بخشی ہوئی حکمت دانائی اور بصیرت کا اولین تقاضا تھا کہ انسان اپنے رب کی جناب میں شکر گزاری اوراحسان مندی کا رویہ اختیار کرے – وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے – اپنی زبان سے اعتراف اور عملاً بھی اسکی نافرمانی سے پرہیز کر کے اس کی رضا کی طلب میں دوڑ دھوپ کر کے، اس کے دئیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک بھی پہنچائے، اور یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے اللہ کا احسان مند ہے –
اللہ کی ہم سے یہ محبت ہے کہ وہ ہمیں شکر گزاری کے اعلیٰ مرتبے پر دیکھنا چاہتا ہے – جبھی اس نے اپنے تعارف کے لئیے انبیاء بھیجے اور قرآن جیسی بیش بہا کتاب سے نوازا – جس کی یہ خوبصورتی ہے کہ جوں جوں ہم اپنے رب سے جڑتے جاتے ہیں یہ ہمیں چلتا پھرتا نظر آتا ہے – اصل شکر گزار بندہ وہی ہے جو زبان سے نعمت کا اعتراف بھی کرے اور اس کے ساتھ اس کی دی ہوئی نعمتوں سے وہی کام لے جو رب کائنات کی رضا مندی کا تقاضا ہو- قرآن میں بعض مقامات پر ایمان اور شکر کا تعلق کفر کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے – اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایمان کی آبیاری فی الحقیقت شکر گزار ی کا لازمی تقاضا ہے – جہاں شکر ہو گا ایمان ضرور ہوگا-اسی شکر کی ادائیگی کا ایک عالمگیر احساس ہمیں رمضان المبارک میں دنیا کے چپے چپے میں ہو تا ہے


جو زندگی کے جس موڑ پر ہے روزے رکھ رہا ہے چاہے سوکھی روٹی ہی اس کی سحری اور افطار ہو روزے رکھ رہا ہے، چاہے دنیا کی طاغوتی قوتوں کے تابڑ توڑ حملوں نے بستیوں اور گلشنوں کو ملبوں میں تبدیل کر دیا ہو، رمضان کے روزے کے اختتام پر عید گاہ میں جائے گا اور اپنے عزیز اقارب اور مسلمان بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر اللہ کی تسبیح و تعظیم بیان کرے گا، مصافحہ کرے گا، گلے ملے گا، یہ اعتراف شکر ہے، بندگی رب کا تقاضا ہے، اے رب آنکھیں اشک بار ہیں دل کرچی کرچی ہیں لیکن ہم پورے ماہ بھی تیرے تابعدار تھے اور آج بھی تہہ دل سے تیرے مشکور ہیں – ہمیں مقبول بندوں میں شامل کر لے-

دراصل رمضان جو کہ جشن قرآن کا مہینہ ہے – اس ماہ میں ہر شخص قرآن سے گزر کر اپنے رب سے بے حد قریب ہو جاتا ہے – روزے کی حالت میں مسلمان اپنے آپ کو حلال چیزوں سے روک لیتا ہے، مثلاً کھانا کھانے سے رک گیا، پانی پینے سے رک گیا – اللہ نے روک دیا، رک گیا –
پھر جب ہم اللہ کے بہترین کلام کو سمجھ کر پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں تو رب کی پہچان ہوتی ہے، اس سے تعلق میں اضافہ ہو تا ہے – بے شک وہ تو ہر پل اک نئی شان میں ہے – تو بلکل تربیت کے اس ماہ کے عین بعد ہمیں شکر کا بھر پور دن عطا فرماتا ہے – جس کی گرمجوشی کے جذبات ہر دل میں ابھر ابھر کر کبھی اشک بن کر کبھی مسکراہٹ کے پھول بن کر ابھر کر سامنے آتے ہیں –
حد استطاعت نئے لباس ملبوس کر کے من پسند لذیذ کھانوں کے خوان سجا کر خود بھی خوش ہوتے ہیں اور اپنے اہل خانہ، بہن بھائیوں اور اپنے ارد گرد رہنے والوں کو بھی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں –

نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے دور حیات سے پتہ چلتا ہے کہ اس دن دوڑ کے مقابلے منعقد ہوتے تھے کیونکہ ہنسنا مسکرانا دین کا حصہ ہیں، دین ہم سے رہبانیت تو نہیں چاہتا-تو شکر گزاری کا یہ دن ہم رب کی یاد کے ساتھ اس کی کبریائی بیان کرتے ہوئے اس طرح گزارتے ہیں کہ یہ دن روزہ داروں کے لیے رب کا تحفہ ہے اور یہ تحفہ ہمیں ہمارا رب عین روزے کے بعد عطا فرما دیتا ہے کہ وہ تو بندوں کو گلے لگانے میں دیر کہاں کرتا ہے 
فرشتے عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں سلام پیش کرتے ہیں اور مصافحہ کر تے ہیں -عید کی یہ انمول ساعتيں ہم امت مسلمہ کو مبارک ہو ں-
اے رب ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ تو نے ہمیں شکریہ کے یہ دن عطا فرمائے – 🌷🌷🌷