ضمیر کی اواز
شمائلہ عتیق Mississauga
نیلے ٹوپے میں وہ چھوٹی سی بچی
موسم کی پہلی برف باری میں
اسمان سے گرتی روئی کے گالے جیسی برف کو
اپنی مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتی
اس کی انکھوں کی چمک اور معصوم قلقاری نے
ایک لمحے کو میرے دل میں بھی خوشی کی جوت جگا دی
مجھے سب کچھ بھلا دیا پھر مجھے یاد ایا
وہ خون الود بھالو جو بچے کے جسم سے چمٹا تھا
یوں کہ اخری لمحے میں اس بچے کو یہی اپنی سب سے قیمتی پونجی لگی ہو
یا پھر اتنی مہلت ہی نہ مل سکی کہ وہ کچھ کر پاتا
دھماکہ گرد و غبار اور دھوئیں کے بادل
اسماں سے برستی اگ
اور پاؤں تلے سے سرکتی زمین
مظلوموں کی اہ و بکا
اور آپ ودانہ کے ختم ہوتے ذخائر
اے حقوق انسانی کے ٹھیکے داروں
کہاں ہو تم تم کے اقوام عالم میں امن کی بات کرتے تمہاری زبانیں نہیں سوکھتییں تھیں
اج کیوں خاموش ہو
کیون کیاخون مسلم اتنا ارزاں ہے؟
رقص ابلیس جاری ہے اور تم نازاں ہو
تب وہ طنزیہ ہنسی ہنسا
اور مجھ سے کہنے لگا
تم تو امت وسط ہو
تم تو چنی گئی ہو تمہارے سر پر تو امامت کا تاج ہے
تمہارے گھوڑے تو قیصر و کسری کے ایوانوں تک پہنچے
تمہارے علم و حکمت کے چراغ ھسپانیہ میں روشن ہوئے
تمہارے اسلاف نے ترکیہ اور ہندوستان فتح کیے
ہاں بالکل میں نے کہا لیکن پھر یہ مجبوری اور مقہوری کیوں ہے؟
اس کی کاٹ دار اواز میرے کان میں پھر سے گونجی
کیونکہ تم نے امامت کی سنت کو بھلا دیا
اور سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی
امامت سے محرومی ان کا مقدر بنتی ہے
جو کتاب کو بھلا دیتے ہیں
اف اف اف۔۔۔ زندگی تو بڑی مصروف ہے
کتاب کو کہاں تک ساتھ رکھیں
ابھی تو بہت سے کام ہمیں نمٹانے ہیں
گھرداری ہے دلداری ہے
اتنا وقت کہاں کہ کتاب کو کھولیں
صبح سے شام اور رات انہی دھندوں میں گزر جاتی ہے
پھر جگ کے کچھ دوسرے پھندے ہیں
میرے ضمیر کی اواز پھر سے مجھے کچوکے لگانے لگی
تو پھر اپنی مجبوری بے بسی اور مقہوری پر راضی برضاہو جاؤ۔۔۔۔
ضمیر کی آواز
۔۔۔شمائلہ عتیق