مریم خالد, لاہور پاکستان
ہم اورصبر یعقوب علیہ السلام
صبرِ یعقوبؑ اور ہمارے صبر میں کیا فرق ہے؟
!! فقط ایک چیز کا _امید
روئے وہ بھی بہت تھے، تڑپے تھے، بلکے تھے۔ جگر ہم بھی اشکوں میں بہاتے ہیں۔ لیکن ان کی امید پہ برسوں بعد بھی گرد نہیں جمی تھی۔
پتہ ہے خوشبوئیں کون محسوس کرتا ہے؟ جو امید کی کلیاں مرجھانے نہیں دیتا۔ ساری دنیا کہتی ہے، “مر گیا یوسف آپکا۔ بھیڑیے نے چیر پھاڑا۔ ہم دس گواہ ہیں۔” مگر آپکا وجدان، آپکا ایمان کہتا ہے کہ ہے میرا یوسف! دکھائی گر نہیں دیتا مگر وہ ہے۔ ساری آنکھیں رکھنے والی دنیا جھوٹی ہو سکتی ہے مگر آپ کی نابینا آنکھیں اپنے یوسف کو دیکھتی ہیں۔ اسے محسوس کرتی ہیں، اس کے لیے دعائیں کرتی ہیں۔ اس کے فراق میں مچلتی، ہلکان ہوتی ہیں۔ میلوں کی مسافت پہ بھی سانسیں اس کے کرتے کی خوشبو محسوس کرتی ہیں۔
کبھی سوچا ان والدین نے جو اپنے بچوں کے لیے دن رات بےقرار رہتے ہیں، کبھی ان کی بیماری کے لیے، کبھی تعلیم کے لیے، کبھی زندگی کے لیے__یوسفؑ کو بادشاہ کس نے بنایا تھا؟
کون یوسفوں کو مصر کی عورتوں کی چالوں پہ ثابت قدم رکھتا ہے؟
کیسے بےگھر بچے تربیت کی ایسی رفعتوں کو چھوتے ہیں کہ جیل کے بدقماش بھی انہیں ‘صدیق’ اور ‘محسن’ کہہ کر پکارتے ہیں۔
یہ میلوں دور کنعان میں ماں باپ کی دعائیں ہوتی ہیں! ایسی دعائیں کہ آنکھوں کا صدقہ دے کر مانگی گئی ہوتی ہیں
والدینِ گرامی! ساری دنیا کہتی رہے، مر گیا یوسف آپکا، ہم سب گواہ ہیں__امیدوں کے دیوں کو ہوا نہ لگنے دیجیے۔ کہیے کہ آپکا یوسف زندہ ہے۔ کہیے کہ وہ پل بڑھ رہا ہے۔ دعائیں کیجیے کہ رب اس کے ایمان، حیا، توکل، استقامت اور معاش میں برکتوں کی حد کر دے۔
والدینِ گرامی! آپکے یوسفوں کو آپکی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ مشکلات کے اندھے کنوؤں میں گرے، آزمائشوں کی منڈیوں میں رلتے، تکلیفوں کے زندان میں پستے آپکے یوسف آپکی دعاؤں کو ترستے ہیں۔ آنکھیں گروی رکھ دیجیے مگر اللہ سے اپنا یوسف واپس مانگیے۔ وہ ملے گا
جب تک آپ کی امید سلامت ہے، وہ ملے گا۔ ایک دن آئے گا آپ کا شہزادہ آپ کو بادشاہ بن کر تخت پہ ملے گا
-اپنے ساتھ بٹھائے گا۔ یوسف کو مردہ کہنے والے آپکے یقین کے آگے سجدے میں گرے ہوں گے
آپ کے بہائے ہوئے آنسو آپ کی نسلوں کی رگوں میں خونِ جاودانی بن کے دوڑیں گے۔ آپ کی کھوئی ہوئی آنکھیں قرنوں تک راہ نما بنی رہیں گی۔
والدینِ گرامی! آپ کے یوسف کو آپ کی دعاؤں کے جزیروں کی، اشکوں کے ذخیروں کی ضرورت ہے