سفر ابراہیم
از عائشہ ندیم
اوشوا ایسٹ ریجن
ایک شاہی پروہت کے گھرانے سے نکل کر “إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ” تک کا سفر آسان تو ہر گز نہ رہا ہوگا۔ ہمارے ہاں تو پائے اقتدار سے چمٹے بچے بھی دیمک کی طرح حکومت نہیں چھوڑتے تو ابراہیم علیہ السلام نے ایسا کیسے کر لیا۔ یقیناً کوئی بڑی زبردست چاہت رہی ہو گی۔ محبت ہی تو وہ طاقت ہے جو دودھ کی نہریں بہا دے پھر وہ محبت جس کے لئے ہو اور جتنی مخلص ہو اتنا ہی رنگ لاتی ہے۔ “صبغت اللہ”۔
یہ مشکل سفر، ایمان کے دروازے میں داخل ہو کر، اسلام کی وادی میں لے جاتا ہے اور اسی وادی کی سیاحت میں بندہ احسان کی منزل تک پہن جاتا ہے۔ پہلا سنگ میل “امنت باللہ”، پھر “اسلمت بربی” اور جب “ ادخل فی السلم کافہ” کی کیفیت ہوگئ تو پھر کہیں جا کر محسنین کا درجہ ملتا ہے اور وہ تو خلیل کے درجے تک پہنچ گئے۔ کتنا مشکل رہا ہو گا نہ یہ راستہ” فَكُّ رَقَبَةٍ”! ہم اتنا مشکل سفر کیسے کر سکتے ہیں؟ لیکن رب تعالی نے تو فرما دیا ہے کہ”لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا” یعنی میں تو مکلف ہوں اپنی وسعت تک۔ بس اپنی ذات کو احساس کمتری سے نکال کر خود شناسی کا راستہ طے کرنا ہے پھر اپنی وسعت کو پہچان لیا تو اپنے حصے کے کام کو بھی سمجھ جائیں گے۔
“إِذْ قَالَ لَهُۥ رَبُّهُۥٓ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ”
Comments are closed.