Skip to content

سفان حسن

  • by

ریشماں یسین

مسی ساگا

جن کے مضبوط ارادے بنے پہچان ان کی
منزلیں آپ ہی ہوجاتی ہیں آسان ان کی

دنیا میں کسی بھی انسان کوایک جیسے حالات کا سامنا نہیں ہوتا،کبھی خوشی کے لمحات تو کبھی غم مگر کوئی بھی چیز دائمی نہیں ہوتی۔زندگی میں ہر طرح کے حالات کا سامنا ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے ۔کوئی یہ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے تو بس خوشیاں ہی ملی ہیں، مجھے غم تکلیف کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، ایساکسی بھی انسان کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ اللّہ تعالی کا قانون ہے کہ خوشی کے ساتھ غم بھی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہی حالات سے بد دل ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی بس مصیبتوں اور آزمائش کا مجموعہ ہے اور ہم ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے ۔جب کبھی زندگی میں ایسے حالات کا سامنا ہو تو منفی سوچوں کے بجاۓ یہ سوچنا چاہیےکہ ہم نے کرنا کیا ہے اور ہم نے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کیونکہ اللّہ تعالیٰ نے جہاں انسان کوبے شمار صلاحیتیں دی ہیں، وہیں عزم و ارادے کی قوت سے بھی اسےنوازا ہے۔اب اگر ان صلاحیتوں کوصحیح تربیت یعنی اس کی تعلیم اور اس کی روحانی و جسمانی تربیت کا معقول انتظام ہوجاۓ اور اس کے ساتھ اس میں پختہ عزم وارادہ بھی شامل ہو جائیں تو وہ ایسےکام کر جاتا ہے جس سے دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ انسان کے اندر ان تمام صلاحیتوں کو کمزور کرنے والی چیز اللہ پر توکل کا نہ ہونا اور ارادے کی کمزوری ہے۔ مثال کے طور پر، کوئی ارادہ کرے کہ میں یہ کام کروں گا پھر راستے میں کوئی رکاوٹ اور تکلیف آگئی تو اس کو چھوڑ دےاور دوسرا کام شروع کر لے ۔پھر وہاں کوئی رکاوٹ آگئی، وہ دل برداشتہ ہو گیا اوراس کو بھی ترک کر دیا تو اس طرح وہ اپنا سارا وقت اپنی ساری قوتیں برباد کر کے چلا جاتا ہےاور زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے پاس کوئی بھی چیز میسر نہیں ہوتی۔
اسلئے انسان جب کام کرنے کا ارادہ کرے تو سب سے پہلے اپنے اندر کام کرنے کی نیت، اللہ کی مدد کے لئے اس کی ذات پر بھروسہ، اور اس کے ساتھ مضبوط عزم کرے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ایسا کام نہیں جس میں رکاوٹیں نہ ہوں۔ کوئی ایسا راستہ بھی نہیں ہے کہ جہاں گرداب نہ آئیں، جہاں طوفان نہ برپا ہوں،جہاں مخالفتوں کے پتھروں کی بارش نہیں ہوتی ۔اسلئے کہا جاتا ہے کہ زندگی آرام کا نام نہیں ہے اس میں مشکلیں پریشانیاں بھی ہیں ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوۓ انسان کو اپنے کاموں کو انجام دینا ہوتا ہے ۔چاہے راستے میں پہاڑ ،گھاٹی ،دلدل ،کیچڑ، طوفان یا تکلیف آجاۓ،مضبوط ارادے کے لوگ اپنے کام کو انجام دیتے ہیں اور وہ کسی تکلیف اور مشکل کو خاطر میں نہیں لاتے اور پورے عزم کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوۓ اپنی منزل کو پا لیتے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال ہمیں حال ہی میں پیرس اولمپکس۲۰۲۴ میں خواتین کے میراتھن مقابلے میں نیدر لینڈ کی سفان حسن کی ملتی ہے جنہوں نے پیرس اولمپکس ۲۰۲۴میں میراتھن میں گولڈ میڈل جیت کر ایک تاریخ رقم کردی ۔اسی اولمپکس میں پہلے انہوں نے دس ہزار اور پانچ ہزار میڑز کی ریس کے مقابلے میں کانسی کےمیڈل جیتے۔ اس طرح وہ لمبی ریس کے تینوں فارمیٹ میں میڈلز جیتنےوالی پہلی خاتون ایتھلیٹ بن گئیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان اولمپکس گیمز میں مذہبی ملبوسات پہننے پر پابندی تھی جس کی وجہ مسلم خواتین کو مشکلات کا سامنا تھا۔اسی وجہ سے کافی خواتین ان مقابلوں میں شرکت نہیں کر سکیں۔ بہر حال ان تمام مشکلات کے باوجود سفیان نے ہمت نہیں ہاری گو کہ مشکلات زیادہ تھی مگر منزل پر پہنچنے کا ایک مضبوط اراداہ بھی تھا کہ ہر حال میں اس میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے ۔اس طرح انہوں نے اپنی تیاری شروع کی اور ان مقابلوں میں حصہ لیا۔انہوں نے ریس میں دو کانسی میڈلز جیتے اور میراتھن میں گولڈ میڈل جیتا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اپنا میڈل حجاب پہن کر حاصل کیا ۔جہاں نیوز چینلز پر میراتھن میں ان کے متعلق خبریں آئیں، وہاں سوشل میڈیا پر بھی اک مسلمہ کی صورت میں انہوں نے اپنی پہچان بنائی اور اس طرح انہوں نے اپنا نام تاریخ کی کتابوں میں لکھوالیا ۔ان کے کئی mottos میں سے ایک فیورٹ موٹو قرآن کی اس آیت سے ہے؛

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ
بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

ہمارے لئےسمجھنے کی بات یہ ہےکہ ہم صرف یہ آرٹیکل پڑھ کر ایسے ہی نہ گزر جائیں بلکہ یہاں رکیں اورسوچیں کہ چاہے راستہ مشکل اور تکلیفوں سے بھرا ہوا ہی کیوں نہ ہو اور منزل پر پہنچنا بھی درکار ہو تو ہم سب سے پہلے اللہ کو شاملِ حال کریں،اس کی مدد مانگیں اورمستقل مزاجی، پختہ عزم اورمضبوط ارادے کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھیں اور پوری امید اور لگن کے ساتھ ڈٹ جائیں۔ مگر شرط یہی ہے ؛اللہ پر توکل اور پرعزم ارادہ ، یہی وہ کامیابی کی کنجیاں ہیں جس نے سفان حسن کو گولڈ میڈل جیتا کر تاریخ کے اوراق میں اس کا نام لکھوادیا ۔

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

2 thoughts on “سفان حسن”

  1. موضوع بہت اچھا لگا ماشاءاللہ لیکن انگلش کے بہت سے الفاظ کو اردو میں لکھا جا سکتا تھا مثلاً میڈلز کو تمغے ، ایتھلیٹ کو کھلاڑی اور فیورٹ کو پسندیدہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے

Comments are closed.