Skip to content

Written By: Aisha Nadeem

City: Oshawa

 

سر آئینہ۔ پس آئینہ

 

 

آج 31دسمبر ہے ۔ سال کا آخری دن ۔ اور میں آئینے کے سامنے کھڑی سوچ رہی ہوں کہ اس ایک سال نے مجھے کتنا بوڑھا کر دیا ہے۔ اکلوتی بیٹی کی

شادی نے تو سارا سر ہی سفید کر دیا ہے۔ میں ایک carrier oriented person ہونے کے باوجود، سب لوگوں کی ideal بہو اور بیٹی ۔ لوگ میری صرف تعریف ہی نہیں کرتے بلکہ مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جاب میں successاور لوگوں میں عزت، اور کسی کو کیا چاہیے۔

لیکن نہیں زندگی میں سکون بھی تو ہونا چاہیے۔”

 

ایک تو یہ میرے اندر کی آواز مجھے حقیقی آئینہ دکھانے کیوں آ جاتی ہے۔ مجھے نہیں دیکھنا یہ آئینہ۔ مجھے نہیں دیکھنا کہ اکلوتی بیٹی کی ہر جائز اور نا جائز خواہش پوری کر کے میں نے اسے ضدی بنا دیا ہے۔ اس کی شادی میں بے جا اخراجات نے میرے سر پر قرض کا بوجھ لاد دیا ہے۔ جس کی instalments کو بھرنے میں شائد ساری عمر ہی نکل جائے۔ اور وہ بیٹی ایک ماہ بعد ہی شوہر سے اس بات پر ناراض ہو گئی کہ وہ کہتا ہے “شادی پر جو اتنے جوڑے بنوائے تھے وہی پہنو، نئے لینے کی ابھی ضرورت نہیں”۔ کبھی کہتا ہے “ گھر کو گھر سمجھو ہوٹل نہیں۔ گھر میں کھانا بناؤ، روز باہر کا کھانا اچھی بات نہیں” ۔ کماتا تو ٹھیک ٹھاک ہے مگر خرچ کرنے میں کنجوس ہے۔ میری بیٹی کیسے گزارہ کرے گی اس کے ساتھ ۔

“ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ شادی کے اتنے نئے جوڑے ایک ماہ میں پرانے ہو گئے کیا! اور باہر کا کھانا کس طرح صحت تباہ کرتا ہے اس کی مثال تو گھر میں موجود ہے”۔

میرے میاں کی صحت باہر کے کھانوں سے نہیں خراب ہوئی بلکہ یہ عمر کا تقاضا ہے۔ میں نے خود کو تسلی دی حالانکہ جانتی ہوں کہ ان سے بڑی عمر کے لوگ ان سے زیادہ چاق و چو بند اور صحت مند ہیں۔

اب کس کا فون آ گیا۔ بیٹی کا فون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہو گیا۔ نیا فون چاہیے اور شوہر کہتا ہے “ضرورت نہیں اسی فون کو استعمال کرو۔ ہر نیا ماڈل خریدنا ضروری نہیں ہوتا”۔ اب یہ پھر ناراض ہو کر آ رہی ہے۔ داماد کا دماغ ٹھیک کرنا پڑے گا۔ اسے سمجھانا پڑے گا کہ کس لئے کماتے ہو۔ ابھی فون کرتی ہوں۔

فون ہاتھ میں لے کر سوچ میں پڑ گئی ہوں کہ کہتا تو وہ ٹھیک ہے۔ میں خود بھی تو کئی سال سے یہی فون استعمال کر رہی ہوں۔

تو کیا میں نے بیٹی کی تربیت میں کوتاہی کی ہے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ گزشتہ ماہ و سال نظروں کے سامنے پھر گئے۔ اپنی جاب کی وجہ سے اسے وقت نہیں دے پاتی تھی تو اسے کھلونوں سے بہلانے کی کوشش کرتی رہی۔ پھر وہ بھی سمجھ گئی کہ اگر ماں باپ اسے وقت نہیں دے سکتے تو اس کی ہر فرمائش کو پورا کریں۔ اس نے بھی یہی ڈگر اختیار کر لی۔ اور وقت کا پہیہ چلتا گیا۔ اس کی کیا غلطی ہے اسے تو تربیت ہی یہی ملی ہے۔ اب کیا کروں,

“میری بیٹی کی زندگی تو برباد ہو رہی ہے اور وہ بھی میرے ہی ہاتھوں۔ داماد اچھا ہے ابھی پیار سے سمجھاتا ہے لیکن آخر کب تک”۔ مجھے ہی اپنی بیٹی سے بات کرنی ہو گی۔ اسے بتانا ہو گا کہ گھر

کو بنانا عورت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ carrier اس کے بعد آتا ہے۔ مجھے تسلیم کرنا ہو گا کہ مجھ سی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ “ کیا وہ سمجھ جائے گی؟” مجھے اسے سمجھانا ہی ہو گا۔ گزشتہ کئی برسوں کا ادھار اس ایک برس میں چکانا ہو گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔ اور bank instalment کی طرح زندگی کا ادھار چکانا بھی مشکل سے بڑھ کر ناممکن میں چلا جائے۔ ابھی دیر نہیں ہوئی اللہ ضرور میری مدد فرمائے گا۔

اور میں داماد کا نمبر ملانے کی بجائے بیٹی کا نمبر ملانے لگی۔

1 thought on “سر آئینہ۔ پس آئینہ”

Comments are closed.