ساس اور بہو
افشاں نوید
پاکستان
بیٹی کی سہیلی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آنٹی آپ سے ملنا ہے۔کچھ باتیں کرنا ہیں جو اپنی امی سے نہیں کرسکتی۔ فکر تو مجھے لاحق ہوئی۔کیلیفورنیا میں نہ وہ آسکی نہ میں جا سکی۔۔ تب ایک شام فون آیا کہ” آپ فارغ ہیں ذرا تفصیلی بات ہے۔؟”میں نے کہا:”حاضر ہوں بیٹی”۔ وہ بولتی گئی میں سنتی رہی۔ جو سوال ذھن میں اٹھے وہ بھی زبان پر نہ آنے دیے کہ پہلے اس کی بات مکمل ہو جائے۔۔ بات کتنی سادہ تھی کہ اس کی ساس چھ ماہ اس کے پاس (امریکا میں) رہ کر دو ماہ پہلے پاکستان واپس آگئی ہیں۔ وہ مضطرب ہے کہ” کوئی مجھے میرے آٹھ ماہ پہلے والا گھر کا سکون واپس لادے۔ مجھے یہ سہیل(شوہر) نہیں چاھیں۔ میں وطن اور والدین سے دور ایسے آدمی کے ساتھ کیسےگزارا کرسکتی ہوں جو اٹھتے بیٹھتے مجھے طعنے دے۔ ہر وقت مجھے یہ احساس دلانا کہ میں بہت نامکمل ہوں۔عورتیں ایسی نہیں ہوتیں۔۔ پہلے کبھی نہیں کہا ایسے۔
اب بات بات پر بہنوں کی مثالیں کہ میری بہنیں بہت اچھی بہوئیں ہیں۔۔تم ایسی تم ویسی۔۔ آنٹی یہ شروع میں ایسے نہیں تھے۔دو برس گزارے ہیں ان کے ساتھ میں نے۔ یہ تو میرا ہر کام میں ہاتھ بٹاتے۔ ہم صبح ساتھ گھر سے نکلتے ۔ یہ مجھے ھاسپٹل میری ڈیوٹی پر چھوڑتے ہوئے اپنے آفس جاتے۔۔ حمل کے نو ماہ انھوں نے مجھے ہاتھوں کا چھالہ بنا کر رکھا۔میری سہلیاں مجھ پر رشک کرتیں۔ یہ تسلی دیتے کہ بےبی کے دنیا میں آنے پر امی جان پاکستان سے آکر بچے کو سنبھالنے میں مدد کرینگی۔ ابھی ایک سال اور ہے میری میڈیکل پریکٹس کا۔۔ میرا اپنی ساس کے ساتھ رھنا کم ہی ہوا پاکستان میں ۔۔ میں تو چھ ماہ بعد ہی امریکا آگئی تھی۔ یہاں ساس مجھ پر تنقید کرتیں میں کبھی جواب نہ دیتی۔ ہاں دل ضرور دکھتا کہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے آتی ہوں میں۔وہ شکایت کے انبار لگادیتیں کہ تم بچے کی چیزیں سلیقہ سے نہیں رکھتیں۔ فریج میں باسی کھانے پڑے ہیں تمہیں پروا نہیں۔۔سہیل کی رنگت سفید پڑ رہی پے,بال جھڑ رہے ہیں تمہیں کیا؟ بات بات پر اپنی بیٹیوں کی مثالیں کہ وہ ساس کا کیسے خیال رکھتی ہیں۔ ۔ میرا فائدہ یہ تھا کہ میرے صبر کا لیول بلند ہوا جس نے پیشہ ور ذمہ داریوں میں میری مدد کی۔ میں صبر سے کام لیتی اور ان کے جلد جانے کی دعا کرتی رہتی۔ ان دنوں میراڈیوٹی سے گھر آنے کو جی نہ چاھتا۔اس عرصہ میں سہیل کچھ کھنچے سے رہنے لگے میں نے سوچا یہ چلی جائیں گی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اب ان کو گئے دو ماہ ہونے کو آئے۔سہیل کی وہ التفات ہی نہیں جس کو میں اپنی خوش نصیبی گردانتی تھی۔بےبی کے معاملے میں تعاون سے انکار کردیتے ہیں کہ دنیا کی سب عورتیں بچے پالتی ہیں, تم کیا احسان کرتی ہو؟ میرے ساتھ میز پر کھانا تک پسند نہیں کرتے۔ میڈ میں نے اپنی تنخواہ سے رکھی کہتے ہیں اس کو نکالو ۔میری زندگی کوفت بن گئی ہے ۔کوئی ویرانی سی ویرانی ہے میرے اندر۔یہاں کوئی عزیز نہیں۔امی سے یہ باتیں کروں تو ان کی راتوں کی نیند اڑ جائے گی۔وہ تو پہلے ہی امریکا کا سن کر رشتہ کو منع کررہی تھیں۔میں تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔۔آنٹی آپ بتائیں میں کہاں جاؤں؟”
میرے پاس کیا جواب تھا اس سوال کا۔میں نے ڈوبتے دل سے فون بند کرتے ہوئے کہا:” بیٹا نماز کا وقت جارہا ہے دوبارہ کال کروں گی۔” سچ یہ کہ دماغ اپنا ماؤف۔۔بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ پردیس میں بہو کو کیسے بے حکمتی سے شوہر کی نظر سے گرا دیا۔۔ اس کی آھیں کس کو لگیں گی۔ کئی مرتبہ میں نے خواتین کو بہو کی برائی کرتے ہوئے یہ کہتے سنا کہ: ” میرا بیٹا تو خود عاجز ہے اس کی حرکتوں سے۔قسمت کا لکھا کیسے مٹ سکتا تھا۔” اگر بہو کی کمزوری سے میاں بیوی میں اختلاف ہے تو اس اختلاف کو اپنے لیے “اسپیس” سمجھنا کون سی عقل مندی ہے۔ آپ کو بہو سے شکایت ہو سکتی ہے مگر شوہر کی نظر سے بیوی کو گرانا کیسی گری ہوئی حرکت ہے۔ ر کی نظر سے بیوی کو گرانا کیسی گری ہوئی حرکت ہے۔ اس کے ماں ہونے کی قدر نہ کرنا!!! جیسی ماں آپ ہیں ویسی ہی وہ ہے۔ایک ماں کا رتبہ اپنے بیٹے کی نظر سے گرانا بڑے گناھوں میں سے ایک گناہ ہے۔۔ آپ کی اپنے بیٹے سے ہم آھنگی کا مطلب یہ نہیں کہ بہو کی کمزوریاں بیان کرنے میں آپ ایک پیج پر ہیں۔چونکہ بیٹا آپ سے بہت محبت کرتا ہے اس لیے بہو اس کی محبت کی حق دار نہیں ہوسکتی۔بیوی کی طرف جھکاؤ کا مطلب یہ کیوں لیا جائے کہ بیٹے کے دل میں آپ کی قدرومنزلت کم ہورہی ہے۔آپ ماں ہیں۔آپ کے رتبے کا کسی سے کوئی تقابل نہیں۔بیٹا بہو کے ساتھ خوش ہے تو آپ ناخوش کیوں؟؟ یہ تو سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ماؤں کو دعا کرنا چاہیے کہ ان کے بیٹے اور بہو میں ایسی محبت ہو جیسی رسول اللہﷺ کو اپنی ازواج حضرت خدیجہؓ و سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے محبت تھی۔آپ کتنا خوش ہیں کہ آپ کی بیٹی سسرال میں خوش ہے۔ آپ کا دل کتنا ٹھنڈا ہے کہ آپ کا داماد قدردان ہے۔آپ کا گھر بھی کسی کی بیٹی کی سسرال ہے۔تو اس کو جنت کدہ بنانے کی فکر آپ کی اولین فکر ہونی چاہیے۔ بہو آئیڈیل ہے نہ ساس۔بڑوں کو زیادہ درگزر کرنا چاھیے اور چھوٹوں کو اسپیس دینا چاھیے۔انکی زندگی کی شروعات کو رنگوں کی کہکشاں سے سجائیں۔ وہ رنگ آپ کے میٹھے بول اور درگزر ہے۔۔ گھر میں جس کی عمر زیادہ ہے اس کا تجربہ اور مشاہدہ زیادہ,اس لیے اس کی ذمہ داری بھی زیادہ۔۔ اس بچی کی گفتگو سن کر میں سوچتی رہ گئی کہ ۔جس کی اپنی بیٹیاں ہوں اس کو مکافات عمل سے ڈر کیوں نہیں لگتا.دوسرے کی بیٹی تو آپ کی آئندہ نسلوں کی معمار ہے۔۔