مریم روشن
زیتون کی بستی میں رات اب ڈھلنے لگی تھی ۔ آسمان کی سیاہ چادر پر سجی چاند تاروں کی کامدانی ماند پڑ گئی ۔ بجلی کے بغیر اندھیروں میں ڈوبی رات جو دنیا کی نظر میں محض 10 ماہ سے مسلط ہے مگر حقیقت میں زیتون اور انجیر کی بستی پر 75 سال سے ان اندھیروں نے قیام کر رکھا ہے ۔ یہ رات بھی ویسی ہی ایک رات تھی جیسے برسہا برس سے گزر رہی تھی۔ آوازں سے گونجتی رات ۔ جاسوس ڈرون کی زن زن ، اچانک گر جانے والے بم کی دہلا دینے والی آوازیں ، رات کے پہر اپنوں کی یاد میں بلند ہوتیں سسکیاں ، دوا کے لیے کراہتی درد بھری آہیں ۔ غرض جب سورج دور افق پہ جا چھپتا تب زیتون کی بستی میں سناٹے گفتگو کرنے لگتے۔
ہماری کرہ ارض کو خلا سے دیکھو تو روشنیوں میں نہائی زمین سیٹلائیٹ کی آنکھ سے کیسی بھلی لگتی ہے۔ روشنیوں کے سنہری گھیرے ، سونے سے دکھتے دائرے رقص کناں نظر آتے ہیں۔ مگر اسی زمین پر یہ چھوٹی سی اندھیروں میں ڈوبی ارض مقدس روشنیوں کے عکس دیکھتے لوگوں کو یاد ہی نہیں آتی ۔
کہتے ہیں گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے۔ زمین گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہو بھی کیسے نہ یہ زمین جو انسان کے لیے تخلیق کی گئی تھی انسان ہی کے خون ناحق میں بھگوئی ، گیلی کی جائے تو کیسے نہ بخار ذدہ ہو اٹھے۔
انبیاء کی سرزمیں پہ بسنے والے جی داروں کی آنکھیں اندھیروں کی عادی ہو گئی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو اندھیرے بھلے لگتے کہ وہ آنسو جن کو دن کی روشنی میں چھپائے چھپائے پھرتے کہ کسی دیکھنے والے کے حوصلے نہ ٹوٹیں وہ بند توڑ کے بہہ نکلتے کہ اب کوئی نہ دیکھے گا۔ رونے کی کوئی ایک وجہ تو نہیں گھر چھوٹے ، اپنے بچھڑے ، بھوک نے ڈیرا ڈال لیا اور اس سب کے بعد یہ احساس کہ کوئی کچھ ستم ڈھا لے ، بوٹی کر چیل کووں کو کھلا دے ، ذیادتی کرے وڈیو اپ لوڈ کرے ، قیدی ہوں یا آزاد سب پر وہ مظالم ڈھائے کہ انسانیت تھرا جائے لیکن ایک سناٹا سا سناٹا ہو ، کوئی مضبوط آواز ، کوئی روکنے والا ہاتھ نہ ہو ، یہ بات راتوں کو رلائے نہ تو کیا کرے ۔
وہ بھی ایک ایسی ہی رات تھی ۔ خوشبو دار مالٹوں اور انگوروں کی سرزمین پہ اب بارود کی خوشبو پھیلی تھی ۔ وہ زمانے گئے جب باد صبح کے ساتھ پھلوں کی خوشبو ہر سمت پھیل جاتی ۔ اب تو بس بارود کا دھواں ، گرتی عمارتوں کے ملبے سے اٹھتی بو ہے۔ بے آرام نیند سے جاگ کے نماز فجر کے لیے اٹھتے ہوئے محمد نے بیٹے کا ماتھا چیک کیا ہلکی حرارت سی تھی۔ اس کو پیار کرتے ہوئے نماز کے لیے چلا ۔ بیٹے نے پیچھے سے آواز دی
“بابا”
” ہاں جان بابا ، تم آرام کرو ابھی کمزوری ہے ۔ میں نماز پڑھ کے آتا ہوں۔ “
محمد وضو کرتے ہوئے اپنی پرانی عادتیں یاد کرتا رہا ۔ یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ صبح خیز تھا ۔ فجر کے بعد لازمی واک کرتا پھر تل لگے نان، زیتون ، شہد اور لوبیا کا سالن کھا کے جاب پر نکلتا۔ آج وضو کرتے ہوئے نجانے زبان پر کیسے پسندیدہ ناشتے کا ذائقہ سا آیا ورنہ مستقل ٹن فوڈ کھا کے وہ بھول ہی گیا تھا کہ اس کیا پسند تھا ۔
مسکراتے ہوئے مسجد کی جانب چلا زرا ہی تو فاصلہ تھا ۔
گھر چھوڑے مسافر ذیادہ دور کہاں جائیں گے !
گھر چھوڑ کے کون سا قلعہ مستعار لیں گے !
دشمن ایک کونے سے دوسرے بھگائے جائے ۔
سامان لادے ، گرد آلود پاوں گھسیٹتے ، تھکے ہارے مسافر ۔۔۔
زرا سی پٹی پر کی جانے والی ہجرتوں کی کہانی کیا کہیے !
محمد اپنے خاندان کے ساتھ اسکول میں پناہ گزین تھا ۔ جس کے چپے چپے پر کوئی نہ کوئی انسان سانس لیتا ۔
اسی اسکول کے ایک جانب بنی مسجد میں محمد صف میں کھڑا ہوا تو کچھ انوکھا سا احساس تھا۔ امام صاحب نے تلاوت شروع کی ۔ آیات تھیں کہ دل کو گھلا دینے والا کلام ، دور تک ڈرون کی آواز نہ تھی۔ یہ جاسوسی کرتے عیار ڈرون آج خاموش کیوں ہیں ۔ ایک زور دار دھماکہ اور پھر فجر کے نمازی رب کی طرف لوٹ چلے۔۔۔۔
امتحان ختم ہوا۔۔۔۔
لیکن پیچھے رہ جانے والوں کا امتحان ابھی جاری تھا۔۔۔۔
جانے والے جا چکے تھے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے آگ ، خون کی بارش میں سے اپنے تلاش کرنے کا مرحلہ ۔
تلاش بھی ایسی کہ پہچان مشکل ۔۔۔۔
پہچان کے لیے کچھ تو ضروری ہوتا ہے ۔۔۔۔
بوٹی تو ہر انسان کی ایک طرح کی اس سے کوئی کسی کو کیسے پہچانے ؟
خون آلود مصحف اور لہو سے رنگین فرش پر پیاروں کے ٹکڑے چننا ، ان کو تولنا ، ان کو تھیلوں میں لیکر واپس لوٹنا ۔۔۔۔۔
آہ یہ دکھ ، یہ صدمہ ، ٹراما ان مرابطون کے دل سے کیسے جائے گا ۔۔۔۔
یہ نقش آنکھ کی پتلی سے مٹننا ممکن ہے ؟
بخار سے اٹھا بیٹا بے تابی سے باپ کو ڈھونڈتا ہے ۔۔۔۔
کس سے پوچھے سب انجان ہیں۔۔۔۔
تھک کے ایک جانب بیٹھ کے تکتا ہے ۔۔۔۔
خاموش ، گم صم ، کھویا ، بکھرا ۔۔۔۔
یہ کہانی صرف ایک بچے کی تو نہیں ۔۔۔۔
اب تو لگتا ہے گنتی بھی ختم ہوئی ۔۔۔
شمال سے دیر البلح ،
دیر البلح سے خان یونس ،
خان یونس سے رفح ،
رفح سے جبالیہ تک پھر واپسی کا سفر ۔۔۔۔
جائیے تو کہاں جائیے ۔۔۔۔
یاد رکھیے تو کس کو یاد رکھیے۔۔۔۔
یہ جنگ کیسی جنگ ہے۔ ایک جانب دنیا کا سب سے مکار عیار ظالم سارے قتل و غارت گری کے ہتھیاروں سے لدا دوسری جانب خالی ہاتھ کمزور پناہ گزیں ، نازحین ۔۔۔۔
کبھی رک کے سوچئیے 10 ماہ بیت گئے ۔۔۔
غزہ نے آپ کو کیا دیا ؟
کیا سکھا دیا؟
اور
آپ نے انہیں کیا دیا؟
May Allah subhan a otalla help the people of Palastine . Aameen
Comments are closed.