Skip to content

 رشیماں یسین

مسی ساگا

 

ففروالی اللّہ: انسان چاروں طرف  سے خطروں  میں گھرا ہوا ہے اور وہ ایک پناہ گاہ کی تلاش میں  ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہےکہ شیطان اسکا کھلا دشمن ہے اور وہ اسکے پیچھے لگا ہوا ہے نہہں  معلوم کس وقت آکر وہ  دبوچ لیں اسلئے جلدی کرو بھاگو یعنی ہر چیز سے دامن چھڑا کر اسکی طرف بھا گو اور راستے میں آنے والی ہر روکاوٹ کو دور کردو-  جسے انسان جان بچانے کے لئے سیدھا دوڑتا ہے جسے کوئ پیچھے لگا ہوا ہے اور سامنے اسکو کوئ  پناہ گاہ نظر آرہی ہو اور وہ اسکی طرف بھاگتا ہے، اب  سوچنے والی بات ہے یہاں یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ مغفرت مانگو یا ایسے کام کرو  جس سے معافی ملے بلکہ فرمایا گیا کہ دوڑو یا بھاگو اپنے رب کی مغفرت کی طرف ۔ بھاگو- انسان دنیا کی ہر چیز حاصل کرنے کے لئے دوڑتا ہے مگر اللّہ کی مغفرت کو وہ آرام وسکون سے چلتے ہوۓ حاصل کرسکتاہے پھر کیوں اسکی طرف بھاگنا ہے کیوں دوڈ کر جائیں اتنی جلدی کس بات کی ہے؟

یہ سوالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں جس کا جواب ہمیں قرآن مجید اور احادیث میں ملتا ہے کہ جس میں  نیکیوں کے حوالے سے تیزی دکھانے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ترغیب دی گئ ہے اور اس راہ کو اللّٰہ کی مغفرت اور جنت کی راہ اور اسکو روشنی کا سفر کہا گیا ہے

     “ دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین و آسمانوں جیسی ہے ( سورہ آل عمران # 133) 

  ہمیں اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ رب کی مغفرت اور جنت  صرف مغفرت کی دعا مانگنے سے نہیں ملے گی اسکے لئے  نیکی اور مغفرت والے کام کرنے علاوہ ہمیں نیکیوں کو حاصل کرنے کے لئے دوڈنا بھی ہے کیونکہ ہمارے  پاس وقت بہت کم ہے اور ہمیں  یہ بھی نہیں معلوم کس کے  پاس کتنا وقت ہے 

جو چیز ہم  حا صل کرنا چاہتے ہیں وہ اتنی آسان نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں اللّٰہ کی مغفرت رضا اور اسکی جنت  

 اتنی آسانی سے نہیں ملتی،اورجو نیکیاں ہم نے کی اسکی کوئ گارنٹی نہیں ہے کہ وہ قبول بھی ہوئ کے نہیں اور کیا وہ جنت حاصل کرنے کے لئے کافی ہوجائیں گی ۔ 

  • رب العالمین نے  جو اتنی بے حساب  نعمتوں کی بارش کی ہے انکے شکر ادا کرنے کا واحد طریقہ اسکے  بتاۓہوۓ راستے پر چلتے رہنا ہے ، اس راہ پر اتنی تیزی دکھائیں،  اسکا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے مگر پھر بھی  اسکا حق ادا  نہیں ہوسکتا ۔
  • سست رفتاری سے  چلنے میں یہ نقصان  کہیں وقت کی مدت ختم نہ ہوجاۓ ،عمل کی رفتار کو تیز کرنا تاکہ روح کی غذائ ضرورت سخت تر ہوجاۓ،کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی کوشش، وقت کا صحیح استعمال اور اقامت دین کے کاموں میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا۔
  • دین کے کام کرنے والوں کی رفتار باطل قوتوں کی تیز رفتاری( جذبہ، انفاق ،اور قربانیاں )کو دیکھ کر مزید تیز تر ہوجانا چاہیے – انفاق کی قبولیت والی چیزیں ریاکاری نہ ہونا ، بدلے اور شکریے کی طلب، احسان نہ جتانا اسکو کسی بھی قسم کی فیس نہ سمجھنا کہ کہ اگر نہ دے سکیں تو افسوس اور اگر دےدیا تو خود پسندی کا نہ پیدا ہونا۔باطل کے ساتھ مقابلے میں حق کا ساتھ دینا یہ ایک  مشکل راستہ ہے جس میں قربانی،صبر اور استقامت کے ساتھ رفتار کو تیز تر رکھنا اور کبھی انکے مقابلے میں رفتار کو کم نہ کرنا ۔   

اپنی کوششوں پے کبھی مطمئن نہ ہونا کیونکہ دوڑنے والا کبھی مطمئن نہیں ہوتا کہ اسکی جیت لازمی ہے جنت کی راہ میں کوئ مقام ایسا نہیں آتا جہاں پہنچ کر دوڑنے والا یہ سمجھ لے کہ منزل آگئ اور جس مقام پر وہ سمجھے 

 گا تو وہ بازی ہار جاۓ گا ۔اللّٰہ کی طرف دوڈنا زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ اپنی تربیت ہو دعوی یا تعلیم و تدریس  یا خدمت خلق ان سب میں مسلسل کوشش کرنا،  وقت ،صحت، جوانی ، فرصت ،اور زندگی کو غنیمت جانتے ہوۓ نیکی کرنے کا جو موقع ملے اسے ضرور کرنا اور اللّہ کی رضا ہماری زندگی کی تمام سرگرمیوں کا محور

 ہو اللّہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا ایمان جو کہ بہت  کمزور ہے اس کی اصلاح ،قوت  اور ہماری رہنمائ عطا  فرما تاکہ ہم نیکیوں کو کرنے والے، اللّہ کی رضا اور جنت کو حاصل کرنے والے  اور اس روشنی کے سفر کو  جاری رکھنے والے ہو  آمین