Skip to content

رمضان ۱۷ غزوہ بدر

  • by

ریشماں یسین مسی ساگا

تیرہ سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے مگر مسلمانوں کا جذبہ ایمانی کم نہ ہوا، ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان مسلمان ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور آخرکار غزوہ بدر ہوا۔

سعودی عرب میں مدینہ منورہ سےتقریباً130کلومیٹردوری پر بدر حنین کا میدان موجود ہے جہاں تقریباً چودہ سو سال قبل ایک ایسا معرکہ پیش آیا جسے دنیا کی چند فیصلہ کن جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عسکری اعتبار سے دیکھا جائے تو اس جنگ میں شامل افراد کی تعداد بہت کم تھی تاہم اس جنگ کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں بھی اس دن کو یوم الفرقان یعنی فیصلے کے دن کے نام سے یادکیا جاتا ہے ۔ اس وقت مسلمان اگرچہ کم تعداد میں تھے لیکن وہ ایک قوم تھے۔ مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز، گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اللہ کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی۔

‎’’اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔

‎اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور مارو ان کے ہر جوڑ پر ۔‘‘ (سورۂ انفال آیت 12)۔

‎قرآنِ پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔

<

p dir=”rtl” style=”text-align: right;”>قرآن کریم میں اللّہ تعالی فرماتا ہے کہ : ’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘
(سورۂ انفال آیت9)

اور مسلمان کفر کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے بے تاب تھے ۔تاکہ حق وباطل کے درمیان ہمیشہ کیلئے فرق واِمتیاز کردیا جائے۔حضرت ابو بکر صدیق ؓنے جان نثارانہ تقریر فرمائی لیکن رسول کریم ؐاَنصار کی طرف دیکھتے تھے کیونکہ بیعتِ عقبہ میں اُن کے ساتھ یہ عہد وپیمان ہوا تھا کہ وہ رسول کریم ؐکی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اورتلواراُس وقت اُٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے ۔

حضرت مقداد بن اسود ؓنے بارگاہِ رسالتِ مآب ؐ میں عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ ہم آپ ؐکے حضور وہ بات نہیں کہیں گے: جو حضرت موسیٰؑ کی قوم نے کہی تھی کہ ’’آپ اور آپ کا پرورد گار دونوں جا ئیں اور قومِ جبارین سے لڑیں۔ (المائدۃ:۴۲) بلکہ ہم آپ ؐکے دائیں طرف ‘ آپ ؐ کے بائیں جانب‘ آپ ؐ کے آگے اور پیچھے دشمن کے ساتھ لڑیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓجو اِس حدیثِ پاک کے راوی ہیں‘ فرماتے ہیں‘ میں نے دیکھا: حضور نبی کریمؐ کا چہرۂ اَنور خوشی سے چمکنے دمکنے لگا‘ آپ ؐ خوش ہوگئے۔ غورکیجئے کہ ایک طرف 1000کا طاقتور لشکر ہے۔ جس کے پاس مکمل اسلحہ ،مادی وسائل،تھے اور ساتھ ہی مختلف قبائل کااتحاد بھی تھا۔اس کے برعکس دوسری جانب اہل ایمان کے لشکر میں محض313جانثارتھے۔ یہ لشکر بے سروسامانی کی حالت میں تھا۔اس لشکرکے پاس مکمل سامان جنگ بھی نہیں تھا۔ 313کے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے اور ستّراونٹ تھے جن پر تمام لشکر باری باری سواری کرتے تھے۔ لیکن اس لشکرکے پاس ایمان کی طاقت تھی اور سینوں میں سرفروشی کاجذبہ موجزن تھا۔ پیارے نبیﷺ نے اللہ تعالی کے دربارمیں دعاکی کہ”اے خدا! یہ قریش سامان ِغرورکے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹاثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مددآجائے جس کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایا۔اے اللہ! اگرآج یہ مٹھی بھرجماعت بھی ہلاک ہوگئی توپھرروئے زمین پرتیری عبادت کہیں نہیں ہوگی“ اور پھراللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں اہل ایمان کی غیب سے مددکی قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ نےایک ہزارفرشتوںں کو مسلمانوں کی نصرت کے لئے بھیجا۔سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے۔

”اور وہ موقع جب تم اپنے رب سے فریادکررہے تھے جواب میں اس نے فرمایاکہ میں تمہاری مدد کے لئے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں،یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لئے بتادی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں ، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللّہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینااللّہ زبردست اور دانا ہے ( سورہ الانفال #9,10)

جب جنگ شروع ہوئ تو کفار کے سر غرور سے تنے ہوا تھے مگر جنگ کا اختتام ہواتو غرور سے تنے ہوئے سرندامت سے جھکے ہوئے تھے،تکبر سے اٹھتے قدموں کے بجائے مرے مرے قدم تھے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے غرورکوتوڑکر رکھ دیا،اس غزوہ میں 14مسلمان شہید ہوئے جبکہ کفار کے 70 افراد ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں مکہ کے کئی سرداراور بااثرافراد بھی تھے جن میں سرفہرست ابوجہل ہے جو دوکم عمرصحابہ کرام حضرت معاذؓ اور حضرت معوذ ؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ غزوہ بدر میں اللہ اہل ایمان کو رہتی دنیا تک کے لئے ایک سبق دیدیا کہ اگر دلوں میں کامل ایمان ،دین پر مرمٹنے کا جزبہ اور اللّہ پر توکل ہو تو باطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ثابت قدمی ، شوق شہادت اور اطاعت امیر سے حالات کوُموڑا جاسکتا ہے ، محض دنیاوی وسائل ، آلات جنگ اور سپاہیوں کی کثرت جنگ جتنے کے لئے کافی نہیں ہوتیں، غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *