افشاں نوید
پاکستان
ربیع الاول
آج کے دن کو بارہ وفات کہتی تھیں امی جان مرحومہ۔
ہمارے محلے کے ہر گھر میں کچھ خاص پکتا ,برکت کے طور پر تقسیم کیا جاتا۔
سارا مہینہ میلاد شریف کی محفلیں سجتیں۔
ہماری ایک عزیزہ ابھی تک ربیع الاول میں دیار غیر سے آکراپنا خالی گھر کھول کر میلاد کی محفل کرتی ہیں۔چلی جاتی ہیں ۔۔
رات سڑک پر جابجا قمقمے نظر سے گزرے۔
کچھ سادہ سے لوگ محبت کے سادہ انداز اپنا لیتے ہیں۔
پچھلے لوگوں کو اتنا ہی پتا تھا۔
اظہار کا یہی انداز انھوں نے اپنے بڑوں سے پایا تھا۔
کوئی مضبوط دلیل نہ ہوتی تھی امی جان مرحومہ کے پاس سوائے اس کہ۔۔۔ہماری آپا(والدہ) ایسا ہی کرتی تھیں۔۔۔
محلے کی عورتیں اکٹھی ہوکر ایک خوشبو سے بسے کمرے میں نعتیں اور درود پڑھتی تھیں,ہر آنکھ اشکبار ہوتی تھی۔
چینلز پرجو خواتین آج نعت خوانی کرتی ہیں۔فرق تو ہے ناں۔
سچی بات ہے ان خواتین کو دیکھنے کے بجائے صرف سننا بہتر ہے۔
ہچھلے زمانے میں بہت کچھ پروفیشن نہیں بنا تھا۔محلے میں کوئی ھدیہ نہیں ہوتا تھا نعت خوانی کا۔۔
بس محبت اور صرف محبت۔
آج جب علم کےذرائع عام ہو گئے اب محض اس لیے کہ ہمارے بڑے ایسا کرتے تھے دلیل کافی نہیں ہے۔
ڈگری یافتہ لوگ جو سب جانتے ہیں اگر محض تقلید کے خوگر رہے,بدعت کو جانتے ہوئے بھی اپنایا۔۔
محض زمانے کا چلن نبھانے کو یا اپنےمرشد کی پیروی میں بدعت کو نہ چھوڑا ۔۔
یا نئی بدعتوں کو ایک عظیم ہستی ﷺ کے یوم پیدائش سے منسلک کیا تو کیساحساب ہوگا؟؟
اس لیے کہ ہم سب سے اپنے علم اور شعور کے مطابق ہی حساب لیا جائے گا۔
آج کے عظیم دن ایک سنت کا جائزہ لیتے ہیں کہ
آپﷺ کمر سے پکڑ پکڑکرآگ میں جانے سے روکتے تھے۔
ہم نے اب تک کتنے لوگوں کو کمر سے پکڑ کر نہ سہی اپنے قول و عمل سےآگ کے گڑھے سے بچانے کی کوشش کی۔
افشاں نوید