دیسی ماں کا سانجھا مسئلہ
نیّر تاباں
نیوفاونڈ لینڈ
ہر دیسی ماں کا ایک مسئلہ سانجھا ہےکیا کروں، بچہ کچھ کھاتا ہی نہیں۔
پیدا ہوتے ساتھ ہی کولوسٹرم سے راضی نہیں ہوں گے۔ “اوپر” کا دودھ لازمی لگا دیں گے کہ دودھ پورا نہیں ہو رہا۔ استثنائی حالات چھوڑ کر یہ ڈیمانڈ سپلائے والی چیز ہے۔ جتنا بچہ زیادہ ڈیمانڈ کرے گا، ماں بچے کو بریسٹ پر لے گی، اتنا ہی دماغ کو میسج ملے گا کہ جسم دودھ بنائے۔ لیکن نہیں! اوپر کا دودھ! کیونکہ تسلی ہی نہیں ہوتی۔ فارمولہ ملک کا خرچہ بھی کریں گے، بوتلیں اور نپل بھی خریدیں گے، اور سٹرلائز کرنے کا جھنجھٹ الگ۔
ذرا بڑا ہو جائے گا، چوتھے مہینے میں ہی ٹھوس غذا پر لگانے کی کوشش۔ وجہ؟ بس موٹا تازہ ہو جائے کسی طرح۔
ذرا اور بڑا ہو جائے تو سکرین لگا کر بچے کے ہوش و حواس ماؤف کر کے کھلائیں گے۔ بچے کو کچھ پتہ ہی نہ ہو کب منہ میں نوالہ گیا، کب نگلا، کب پیٹ بھرا۔ کل کو موٹاپا آتا ہے تو آیا کرے، لیکن ابھی تو ٹھونسا دیں کیسے بھی۔
سکول شروع ہوتا ہے۔ پورا دن بچے کو گھر والوں سے دور رہنا ہے، لیکن دعا، جپھی، بوسے پر خدا حافظ ضروری نہیں۔ ہاں یہ آخری نوالہ حلق سے اتروا لیا جائے، دودھ کا گلاس کیسے بھی بچے کے اندرانڈیل دیا جائے۔
پیدائش کے فورا بعد سے جو بچے کو کھلانے کا جنون چڑھتا ہے، کہیں رک کر ہی نہیں دیتا۔
ڈاکٹرز ایک بات کہا کرتے ہیں کہ بچے کو کیا کھلانا ہے، یہ فیصلہ والدین کا ہونا چاہئے۔ بچے نے کتنا کھانا ہے، یہ فیصلہ بچے کا ہونا چاہئے۔ آپ صحت بخش خوراک دیں، بازار کی بنی اشیا سے پرہیز کریں، باقی کام بچے پر چھوڑ دیں۔
اگر بچہ اپنی ہائیٹ کے حساب سے ایکٹو ہے، واقعتاً کمزور نہیں تو کھانے کو جنگ بنانا چھوڑ دیں۔ بچوں کو زور زبردستی، ڈانٹ ڈپٹ، سکرین، “پلیٹ خالی کرو” کے چکر میں اوور ایٹنگ مت کروائیں۔ ان کے اندر فطرت نے ایک خودکار نظام رکھ چھوڑا ہے۔ اس نظام کے تحت انہیں خود فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کتنا کھانا چاہتے ہیں۔
اپنے بچوں کا دوسرے بچوں کی خوراک سے موازنہ نہ کریں۔ انہیں زبردستی کھلا کر اوور ایٹنگ کی عادت نہ دیں۔انہیں موٹاپے کے راستے پر مت ڈالیں۔کھانا کھانے کا وقت سٹریس فل نہ بنائیں۔ نہ اپنے لئے کہ اف! اب بچے کو زبردستی کھانا کھلانا ہے۔ نہ بچے کے لئے کہ اف! اب پھر (ڈانٹ اور) کھانا کھانا پڑے گا۔ ایزی رہیں، خود بھی، اور بچے کو بھی رہنے دیں۔ وہ ایکٹو ہے، جسمانی اور ذہنی طور پر، بس اللہ کا شکر کریں۔