افشاں نوید
24 دسمبر 2024ء
ہمارا بڑا تہوار عید الفطر کا تہوار۔۔۔۔کیا شان ہے ہماری تہوار کی۔رمضان سے قبل بے چینی سے رمضان کا انتظار کیا جاتا ہے ۔پھر ایک ماہ کی ایک سخت تربیتی مشق۔چاہے درجہ حرارت 50 ہو اور روزہ پندرہ گھنٹے کا ۔۔
مگر بیشتر مسلمان رمضان کو رمضان کی طرح ہی مناتے ہیں۔رمضان کا اکرام ایک طرح سے عید کی تیاری بھی ہے۔۔ کیونکہ عید انہی کے لیے ہے جنہوں نے رمضان اس کے تقاضوں کے ساتھ منایا ہو۔جس نے رمضان کی قدر نہیں کی اس کی تو کوئی عید نہیں۔مسلمان کس طرح غیر معمولی طور پر اپنے روٹین کو بدلتے ہیں۔نصف شب کے بعد اٹھ کر عبادت اور سحری کرتے ہیں۔دن بھر کھانا پینا ہی نہیں چھوڑتے اپنے اپ کو گناہوں سے بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کثرت سے صدقہ خیرات۔مساجد آباد ۔گھروں اور مساجد میں معمول سے زیادہ عبادات۔
دوران رمضان مسلمانوں کی بستیوں میں کوئی بھوکا نہیں رہتا۔معتکفین سے مسجدیں راتوں کو بھی آباد۔آخری عشرے میں شب بیداری کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔پورے عالم اسلام میں کوئی معتکف اپنی مرضی سے اعتکاف ختم نہیں کر سکتا جب تک اجتماعی اعلان نہ ہو۔
کیسا مثالی عالمگیر ڈسپلن۔پھر انتیس رمضان کا چاند فیصلہ کرتا ہے کہ اگلے دن عید ہونا ہے یا نہیں۔یہ انتظار خود اپنے اندر کتنی لذت رکھتا ہے۔
اگر یہ فیصلہ کر دیا جاتا کہ روزے تیس ہونا ہے تو چاند رات کا سرور کیسے حاصل کرتے۔چاند رات کی لذت وہ محسوس ہی نہیں کر سکتا جس کا اس سے واسطہ نہ پڑا ہو۔مسلمانوں کا تہوار اپنے اندر کیسی زبردست روحانی لذت لیے ہوئے ہے ۔
مسلمان خوشی مناتے ہوئے سرشار ہوتے ہیں کہ وہ 30 دن کے ایک سخت ٹریننگ کیمپ کے بعد انعام کے طور پر ان کو عید ملی ہے۔
یہاں یاد رکھیے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار دنیا کی سب سے عظیم شخصیتﷺ کی ولادت کے ساتھ منسوب نہیں کیا گیا۔حالانکہ وہ دن بھی مسلمانوں کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل دن ہے۔لیکن اسلام نے تہوار کو روحانیت کے ساتھ جوڑا۔تربیت اور شخصیت کی بالیدگی سے نسبت دی۔
عیسائیوں کا سب سے بڑا تہوار حضرت عیسیؑ کی پیدائش کے ساتھ منسوب ہے۔تہوار تو تہوار ہے۔۔۔
اللہ کرے کہ وہ حضرت عیسیؑ کی کھوئی ہوئی تعلیمات کو دوبارہ زندہ کر سکیں اور ہم بھی اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقوش پا کی تلاش میں عمر گزارنے کی سعادت حاصل کریں۔۔۔۔