Skip to content

بے مثال مربّی

By: فاطمہ رعنا

میری کتاب زندگی مرقوم ہے مناظر سے۔۔ مناظر جو کبھی اپ بیتی یا جگ بیتی کی شکل اپ کی آنکھوں ، ذہن یا  دل میں نقش ہو جاتے ہین یا پھر کتابوں کے صفحات میں محفوظ رہتے ہیں ۔ اور پھر ان میں سے کچھ مناظر کتاب زندگی کا دیباچہ بن جاتے ہیں

میں اپ کو اپنی کتاب زندگی کے دیباچے کے ایک منظر میں لے جانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ یہ انس بن

مالک رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ باحوصلہ ، اولولعزم اور بیدار مغز مومنہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اور اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں اور روشن رستوں سے محروم مالک بن نضر کے بیٹے ۔۔ انس سات یا اٹھ برس کے تھے ، جب ام سلیم نے اسلام قبول کیا ۔ بیٹے کو اپنی راہ پر لگایا اور بیٹا عافیت اور کامیابی کی راہ پر چل پڑا۔ ناراض باپ نے یثرب اور بیٹے دونوں سے ناطہ توڑ لیا ۔ یہ نبوت کا دسواں یا گیارہواں سال تھا ۔ ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ ، انس کی زندگی میں بطور باپ شامل ہو چکے تھے ۔ ابو طلحہ جن کا مہر ام سلیم نے قبول اسلام ٹھہرایا ۔

مدینہ میں اسلام کی روشنی رسول الکریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تربیت پائےصحابی معصب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ پھیلا رہے تھے ۔ قافلہ اسلام میں یہ گھرانہ بھی شامل ہو چکا تھا ۔ جس میں اب ننھے ابو عمیر بھی موجود تھے ۔

انس دسویں سال میں تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ۔ انس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دے دئیے گئے تاکہ پارس کی صحبت میں سونا تم کیا ہیرا بن سکیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کون انسانوں اور گھرانوں کی قدروقیمت جان سکتا تھا ۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھرانے کو اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا ۔ اور ایسا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری انسانیت کے ساتھ کیا ۔۔۔۔ وہ انداز دلربائی و دلپذیری ۔۔۔۔ انس کے کانوں کو سہلانے انھیں “یاذالاذنین” کہنا ۔ وہ ان کے بالوں بھرے سر پر ہاتھ رکھ کر انھیں ڈھیروں دعائیں دینا۔ لڑکپن کی ترنگ میں کسی کام سے انکار پر وقفہ دے کر پیار سے پوچھنا  ” کیا اب بھی نہ کرو گے ” ۔ نصیحت کرتے وقت ” اے میرے چے ” کا انداز تکلم ۔۔۔۔ ان کے ننھے بھائی ابو عمیر سے اس کے پالتو پرندے ” نغیر ” کے بارے میں پوچھتے رہنا اور پھر ایک شام ان کے گھر چلے آنا اور ننھے عمیر کے پاس بیٹھ کر اس کے فوت شدہ نغیر کے بارے میں پوچھنا ” ماذا نغیر؟ ” اور اس کی عمر کے مطابق اسے زندگی اور موت کا تعلق سمجھانا ۔۔۔ اور پھر نماز کے وقت پر کھڑے ہو کر سارے گھرانے کو نماز پڑھا دینا ۔۔۔ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے انس کے لئے یہ سب کچھ کس قدر موثر رہا ہوگا ۔ ! ان کا محبوب ، ان کا لیڈر ۔۔ ان کے گھر میں ۔۔۔ ان کے بھائی کے ساتھ ۔۔ ان کے دسترخوان پر۔۔۔ اور پھر یوں اللہ سے جوڑ کر نماز میں کھڑا ہو جانے والا۔۔۔۔۔۔ اور موثر ترین رہا !  کہ وہ آج ہم امتیوں کے درمیان ۔۔۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔ بن کر جگمگا رہے ہیں ۔ الحمدللہ رب العالمین