Skip to content

بیدار ہوئی روح رمضان کی آمد پر

By: Aisha Nadeem (Online Campus)

اس ماہ مبارک کے آتے ہی دل ایک انجانی سی خوشی سے لبریز ہو جاتے ہیں۔اور روح سرشار ہو جاتی ہے۔ نتیجتا سر رب کریم کے آگے سربسجود ہو جاتے ہیں کہ اس نے اس ماہ مبارک میں اپنا کلام اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا

( سورہ القدر، الدخان)

اس ماہ مبارک میں مومنوں کا تقوی مزید بڑھ جاتا ہے اور دن صوم اور راتیں قیام اللیل( تراویح) کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے میں گزرنے لگتے ہیں۔دل عبادتوں میں لگنے لگتا ہے، اور کیوں نہ ہو، عدوالمبین جکڑ جو دیا جاتا ہے۔( البخاری- حدیث نمبر 1899)۔

کبھی سحر و افطار میں اپنے اڑوس پڑوس کو شامل کر کے حقوق العباد کا خیال رکھا جاتا ہے ( النساء: 36) تو کبھی افطار کی دعوتوں میں دوست احباب کو شامل کر کے ۔معاشرے کے کمزور افراد کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ اکثر لوگ زکوہ کا حساب رمضان میں کرتے ہیں اور صدقہ فطرکے ذریعے بھی ( البخاری:1511)۔ جب اتنے سارے نیکی کے کام مل جل کر کئے جائیں تو ایک دوسرے سے نیکی کی تحریک بھی ملتی ہے اور دل کو سکون بھی۔ بے شک مل جل کر کی گئی نیکیوں میں برکت بھی زیادہ ہوتی ہےاور معاشرے پر ان کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا رمضان کے علاوہ نیکی کے مواقع میسر نہیں آتے۔ ایسا تو نہیں ہے مگر ہم توجہ کم ہی دیتے ہیں ۔ اس وقت کے حالات کو ہی دیکھ لیں ۔ ہر گھر کسی نہ کسی طور موجودہ حالات سے پریشان ہے کہیں معاشی مسائل، اور کہیں معاشرتی مسائل ہیں کہیں لوگ جسمانی طور پر بیمار ہو رہے ہیں تو کہیں تنہائی ذہنی امراض میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ تو کیا کیا جائے۔ SOPSکو تو فالو کرنا ضروری ہے ۔ بالکل ہے لیکن کیا کہیں دعائے خیر پر بھی پابندی عائد ہوئی ہے۔ کیا ہم ایک فون کال کے لئے ٹائم نکال سکتے ہیں ! اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر اللہ سے دعا ، وہ تو ہر حال میں کر سکتے ہیں اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔

روزے کی اصل روح، اس کا مقصد کس حد تک ہم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں ہمارے روزے ہمارے منہ پر تو نہیں مار دئیے جاتے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کہا جائے، اللہ کی مخلوق مر رہی تھی کوئی بیماری سے اور کوئی بھوک سے۔ لوگ بے چین تھے، خوفزدہ تھے اور ہم اپنے گھروں میں چین سے رمضان اور عید کے اہتمام میں مصروف تھے۔ اہتمام رمضان کا مقصد کہیں بھی اسراف اور نمائش تو نہیں ہے تو پھر یہ سارا تام جھام کس لئے، کسی کے فریزر منہ تک بھرے ہوں اور کسی کا پیٹ بھی خالی ہو۔کوئی تو تین دن کے لئے نئے جوڑے بناتا رہے اور کسی کو ایک بوسیدہ لباس بھی میسر نہ ہو سکے۔

یار زندہ، صحبت باقی۔ کیوں نا اس سال کچھ اہتمام کم کر لیں اور دوسرے لوگوں کے مشکل حالات میں ان کا ساتھ دیں۔ لازمی تو نہیں عیدی صرف اپنے جاننے والوں کو ہی دی جائے۔ کیوں ناں کچھ انجان لوگوں کو عیدی بھجوائی جائے۔ عید شاپنگ میں تھوڑی کمی کی جائے اور نیکیوں کی لوٹ سیل سے فائدہ اٹھایا جائے۔

ممکن ہے اللہ ہماری ادھوری تقوی والے روزوں کو اور ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبول کر لے ہماری خطاؤں کو معاف کر دے اورہم روزہ کا اصل مقصد حاصل کر سکیں جس سے ہماری روح واقعی بیدار ہو سکے۔