ترجمہ : نجمہ ثاقب
پاکستان
ایک مقتل پھر سجا۔۔۔۔۔
آج TV کے پردے پہ مقتل سجا
حکم صادر ہوا
کتنی لاشیں ہیں؟
نمبر شماری کرو
ان کے ناموں کی فہرست جاری کرو
ایک حد میں مگر
یہ سروں سے بھرے طشت تعداد میں
اک ہزار اور دوصد سے زیادہ نہ ہوں
آج TV کے پردے پہ موج لہو
چیتھڑے جسم وجاں کے دکھائے گئے
کاٹ کر نطق کی تیز تلوار سے
لفظ اک معتدل حد میں لائے گئے
تاکہ بے حس زمانے کے اشراف کو
خوف ودہشت کے چیلوں کا دیدار ہو
دست پرکار پر، تیغ کی دھار پر
ایک ہی مرتبہ آخری وار ہو
دیکھ کر غزّہ والوں کے مجروح تن
ساری دنیا حقیقت میں رنجور تھی
اور میں جو ،زمانے کو سکرین پر
یہ تماشا دکھانے پہ مجبور تھی
جان کر مصلحت پیش خدمت کیا
امن کے ٹھیکیداروں کی پنچایتوں میں
سنایا گیا ۔۔۔۔ظلم کا فیصلہ
چار جانب مچا شور آہ وفغاں
کوبہ کو غلغلہ وہ اٹھا ،الاماں
ظلم ہے ،ظلم ہے، ظلم کی کوئی حد؟
جھوٹ ہے جھوٹ ہے۔
جھوٹ سب ،مسترد
حالانکہ عدل کے “خاص میزان” میں
دونوں اطراف پلڑے برابر نہیں
ایک جابر ہے اور ایک مجبور ہے
ایک قاہر ہے اور ایک مقہور ہے
ایک صد، چار صد ، اور ہزاروں بدن
خاک اور خوں میں لتھڑے ہوئے پیرہن
ہائے! قاتل بھی گنتی سے معذور ہے
مرگ انبوہ، بارود، آہ و بکا
کٹ ( cut)کی آواز ، حد نظر تک دھواں
جنگی مجرم، لڑاکے ، حرامی ہیں یہ
غیر ملکی یا شاید مقامی ہیں یہ
مسکرائی تھی میں
میں نے ایڈٹ کیا
بے ضرر، عام شہری، مقامی ہیں یہ
امن کے آشتی کے ،پیامی ہیں یہ
سینکڑوں میں، ہزاروں میں ، لاکھوں میں ہیں
کتنی گنتی کروں؟
آہ! کہاں تک گنوں؟
کس کو آواز دوں ؟
کوئی ہے جو سنے ؟
اور میں ان کی لاشوں پہ گریہ کروں
ان پہ نوحے پڑھوں ،ان پہ ماتم کرو
کیمپ میں دور تک پا برہنہ چلوں
ان کے بچوں کوآغوش میں تھام کر
ننھے کانوں کو رومال سے ڈھانپ لوں
تاکہ وہ عمر بھر سن نہ پائیں کبھی
فاسفورس بموں کی بھیانک صدا
جیسے میں نے سنی
جیسے میں نے سہی
آجtv کے پردے پہ ہنگام ہے
اور میں آپ کو یہ بتاتی چلوں
امن کے ٹھیکیداروں کی پنچایتیں
بھیڑیوں سے نمٹنے میں ناکام ہیں
نطق کے شعبدے آج کافی نہیں
کتنی آوازوں کے سر کٹاؤ گے تم
کتنے حرفوں کو سولی چڑھاؤ گے تم
کتنے الفاظ چھانٹوں میں ،با چشم نم
اے مرے محترم
ہم فلسطینی ہر شام ،ہر صبح دم
زندگی کا سبق دیتےآئے ہیں ہم
زندگی کا ہنر ہم سے سیکھا کریں
زیست کرنے کا فن ہم سے سیکھا کریں
“رفیف زیادہ۔۔۔۔۔۔میڈیا پرسن”