افشاں نوید
پاکستان
اللھم انک عفو کریم۔فاعف عنی۔۔
بات تو اتنی بھی مکمل تھی کہ مولا تو معاف کرنے والی کریم ہستی ہے۔پس مجھے معاف کردے۔
زمین والے کا رشتہ اس وقت براہ راست عرش والے سے ہے۔
چہ مگوئیاں ہیں بندے اور رب کے بیچ کہ مولا تو کریم ہے۔ نا پوچھ کہ کیا کیا اور کیوں کیا ؟بس معاف کردے۔
تیرے در پر اسی لیے آیا ہوں کہ دھودے یہ میل کچیل۔
جو ہوا مان لیا کہ میرا قصور ہے۔بس معاف کردے۔۔
میرے گناھوں کی کثرت کو نہ دیکھ, پھیلی جھولی کی لاج رکھ لے۔
بات تو اتنی کافی تھی مگر۔۔۔۔۔۔۔
درمیان میں ایک لطیف جملہ در آیا کہ “تُحِبٌ العَفوَ۔”
اللھم انک عفو کریم “تحب العفو” فاعف عنی۔
اس لطیف دو لفظی جملے نے( تحب العفو۔۔یعنی تو معاف کرنے سے محبت کرتا ہے)انسان کو عرش سے واپس فرش کی طرف پلٹا دیا کہ زمین والوں کو معاف کرنے کا ظرف ہے تمہارا؟؟
معاف کروگے تو معاف کیے جاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔
ہم کہتے ہیں ہم نے سب کو معاف کردیا۔۔مگر جب موقع ملتا ہے دو تین عشرے پرانی شکائیں,شکوے لے کر بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں وقت میرے ساتھ یوں کیا, فلاں سے ملے ہوئے دکھ میں کیسے بھول جاؤں؟
یاد آنا شاید گناہ نہ ہو مگر زبان پر آنے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے اس فرد کو معاف نہیں کیا۔۔
جان رکھیں کہ شب قدر میں جب عفو کی چادر تنی ہوئی ہے,تین لوگوں کو معافی نہیں ملے گی, ان میں ایک وہ جو دل میں کینہ رکھتا ہوگا۔
کینہ کسی کو برائی کے ساتھ یاد رکھنا ہی ہے۔
فلاں کو ساری زندگی برا سمجھتے اور کہتے رہے اور خود کو تسلی دیتے رہے کہ ہمارے دل میں تو کسی کے خلاف کینہ نہیں۔۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بہت اچھے سحروافطار کرادیے, بہت سی نیکیوں کی توفیق ملی اللہ کے فضل سے مگر۔۔۔۔
30 روزہ تربیتی سیشن کے ان جدا ہوتے لمحات میں ,ہزار راتوں سے بہتر راتوں میں۔۔۔۔میرے دل کا حال کوئی دوسرا نہیں جان سکتا کہ۔۔۔ صاف ہوا یہ شیشہْ دل یا اب بھی گرد پڑی ہے۔
اس بھوک پیاس اور عبادت کی مشقت نے اگر”بچنا” ہی نہ سکھایا تو صیام و قیام کا کیا حاصل۔۔
مقصد تو صرف “لعلکم تتقون” ہی تھا کہ شاید اس بھوک پیاس کی مشق کے ذریعے تم بچنا سیکھ جاؤ۔
یقینا اس مشقت بھرے مہینے کے اختتامی لمحات میں دل کی کھیتی اتنی نرم ہوچکی ہوگی کہ معافی کی کونپلیں پھوٹ رہی ہونگی۔۔
کیا مشکل ہے اللہ کی خاطر سب کو معاف کر دینا ؟
افشاں نوید
٢٦ ,رمضان المبارک ١٤٤٤ ھ