اصول تربیت
نیّر تاباں
نیوفاونڈ لینڈ
ڈھائی، تین، چار سال کے بچوں پر نماز تو نہیں فرض لیکن اے بی سی فرض ہے۔ نماز نہ پڑھے تو تین سال تک انتظار کرو تب سختی کا سوچو۔ لیکن اے بی سی ذرا ٹھیک سے یاد نہ کرے، لکھے نہیں تو ڈانٹنا، بے عزت کرنا، مارنا جائز ہے کیونکہ وہ پیدائش کے ساتھ ہی فرض جو ہو گئی ہے۔ بچوں کو بچہ رہنے دیں۔ وہ سیکھ جائیں گے۔ وہ نہ فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ آئے تب بھی سیکھ جائیں گے۔ یہ پی ایچ ڈی نہیں ہے۔ بس پلے گروپ، کنڈرگارٹن، نرسری ہے۔ ہاتھ ہولا رکھیں۔ یہ ماؤں کے پیٹ سے سارا علم لے کر پیدا نہیں ہوئے۔ انہیں وقت درکار ہے اور ہمیں جلدی بڑی ہے۔ پتہ نہیں کیا بنانا ہے انہیں۔ سلمان آصف صدیقی صاحب اپنے لیکچر میں ذکر کرتے ہیں کہ اب سے کچھ سال پہلے تک سٹریس پچاس پچھپن سال کے لوگوں کی چیز تھی۔پھر زمانہ “ترقی” کرتا گیا۔ سٹریس تیس پینتیس سال کے لوگوں کو بھی محسوس ہونے لگی۔ اب حالات یہ ہیں کہ چار پانچ چھے سال کے بچوں میں سٹریس کی تمام علامات پائی جاتی ہیں۔جانتے ہیں کیوں؟
یہ جو پڑھائی کا بوجھ لاد دیا ہے غریبوں پر پیدا ہوتے ساتھ۔۔۔ ذرا سانس لے لیں خود بھی، اور انہیں بھی لینے دیں۔ وہ سیکھ جائیں گے۔ جلد ہی سیکھ جائیں گے۔
اگر اس دوڑ میں اول نہ بھی آئے تو بھی سیکھ جائیں گے ان شا اللہ! بس۔ تھوڑا تحمل! تھوڑا تحمل، خدارا۔۔۔۔