شمائلہ عتیق
ایڈمینٹن
چھٹی والے دن سب گھر والے جمع ہوتے ہیں اور ناشتے کے بعد عموما میز پر ہی نئی و پرانی نسل کے درمیان مذاکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ آج بھی بات فلسطین کی صورتحال، عربوں کی بے حسی، انڈیا میں مسلمانوں کی حالت زار، پاکستان اور انڈیا میں اداروں کی مداخلت کے تقابل اور اس سے پہنچنے والی خرابیوں سے ہوتی ہوئی مرد کی قوامیت تک آ پہنچی۔ میرا بیٹا جو یونیورسٹی میں دوستوں کے ساتھ دعوہ کا کام کرتا ہے بتانے لگا کہ ہمارا ایک انگریز دوست مسلمان ہو گیا یے ۔اس کی بہن جو یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتی ہے ، سخت ناراض ہوئی۔ اس کا مسلمان مردوں کے لئے کوئی اچھا تاثر نہیں تھا ۔ کیونکہ اس کے ایک مسلمان بوائے فرینڈ نے اس کی اجازت کے بغیر اسکی گاڑی استعمال کی اور اسے کرش کر دیا ۔ وہ اب تک اس ایکسیڈنٹ کا ہرجانا بھر رہی ہے۔ اس بچی نے ایک مسلمان کا بہت برا روپ دیکھا تھا۔ بیٹے نے اس کو شعوری و غیر شعوری مسلمان کا فرق سمجھایا اور بتایا کہ با شعور اور با عمل مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے گھر کی عورت کا محافظ اور اس کی ضروریات کا کفیل ہوتا ہے۔ بچی کا غصہ جب ذرا سرد پڑا تو اس نے اس بارے میں مزید سوالات کیے۔ مردانہ قوامیت کے اس اسلامی تصور کو(جسے مغرب میں عورت کی غلامی کی تکنیک کے جھوٹے پروپیگنڈے سے گردآلود کیا جاتا ہے) کی اصل حقیقت جان کر بڑی حیران ہوئی۔ اس بچی کا کہنا تھا کہ میں 14 سے 24 سال تک مختلف مردوں کے ساتھ رہی ہوں اورمجھے ہرحالت میں اپنا معاشی بوجھ خود اٹھانا پڑتا تھا اور کبھی کبھار تو اپنے بوائے فرینڈ کا بھی۔ لیکن اب دل چاہتا ہے کہ میری فیملی ہو اور کوئی میری بھی ذمہ داری اٹھائے۔ میرا بیٹا مجھ سے کہنے لگا کہ مما عورت نازک ہے اور اس کی فطرت میں یہ خواھش رکھ دی گئی ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے۔ لیکن یہاں کی عورت مجبور ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہے کہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے بغیر اس کی گھر یا باہر کوئی عزت نہیں ہوگی۔ کوئی اس کو اھمیت نہیں دے گا اور نہ ہی کوئی کسی مشکل آنے پر اس کا خیال رکھے گا۔ ریاست کتنی ہی فلاحی کیوں نہ ہو قریبی رشتوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ بیٹے کی بات سن کر میری نظروں میں پچھلے چار دنوں کا منظر گھوم گیا ۔جس میں وائرل انفیکشن ہمارے میاں سے ہوتا ہوا پہلے افراح(بیٹی) کو پھر ابو ,عبداللہ اور مجھے متاثر کر گیا۔ اس دوران بچیوں نے جس طرح میری اور سب مریضوں کی تیمارداری کی، گھر کا خیال رکھا، سچی بات ہے مجھے حیران کر گیا ۔ سوپ بنانا وقتا فوقتا قہوہ دینا، اسٹیم کے لیے پانی گرم کرنا، ہلکی پھلکی غذا اور دوائیں دینا خصوصا ابو کا خیال رکھنا کہ ان کا ڈیمنشیا کسی بھی بیماری میں بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ اٹھنا، بیٹھنا،حتی کہ کھڑے ہونا تک بھول جاتے ہیں۔ کچھ کھاتے پیتے نہیں اور بہت چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ دوران بیماری ان کو بچوں کی طرح بہلا بہلا کر کھلانا پلانا ،باتھ روم لے جانا ہوتا ہے ۔ بچیوں نے انتہائی جانفشانی سے یہ فریضہ انجام دیا اور تیمارداری میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آدھی رات کو اٹھ کر مجھے اور ابو کو خاص طور پر چیک کیا کرتی تھیں کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں اور *اپنے والدین کو اف تک بھی نہ کہو ان کے سامنے عاجزی سے جھکے رہو(سورہ لقمان آیت 14)۔ بیماری کے دوران گھر کے کاموں سے تھوڑے دن کی چھٹی ہوئی ۔تو ایسے ہی خیال دل میں گزرا اور پچھلے دنوں جو ڈسکشن چل رہا تھا اس پر سوچنے کا موقعہ ملا ۔اب بیٹے کی بات پر میں سوچ رہی ہوں کہ میں تو معاشی جدوجہد میں کوئی بھی حصہ ڈالے بغیر اپنے گھر والوں کی توجہ کا مرکز ہوں۔ میں خوش ہوں تو پورا گھر خوش ہوتا ہے میں اداس ہوں تو پورا گھر اداس ہو جاتا ہے۔ گھر والے جانتے ہیں کہ میں امی ابو کے لئے کس قدر حساس ہوں، اس لئے وہ برضا و رغبت، عبادت سمجھ کر امی ابو کی خدمت کرتے ہیں۔ میرے گھر کے کسی بھی چھوٹے بڑے فیصلہ میں میری مرضی کا شامل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میری پھوپھی کہا کرتی تھیں کہ مرد قوام ہے مگر عورت گھر کی وزیر ہے سامنے تو مرد ہوتا ہے، لیکن پس پردہ سارے فیصلے عورت ہی کرتی ہے۔ حقیقتا عورت کو گھر میں ماں اور بیوی کی حیثیت میں وزارت عظمی کا منصب عطا کرتی ہیں۔ یہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والی مغربی تہذیب کی مصنوعی چکا چوند سے متاثرہ عورتیں جو اسلام کے معاشرتی نظام کو ناکام اور عورت مارچ کی آڑ میں عورت کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ یہ بھلا کیا جانیں وزارت عظمی کا نشہ۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں سے نیک سلوک کرنے کی وصیت کی ھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ گفتگو اور بہت زیادہ بے تکلفی سے اس ڈر کی وجہ سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں کوئی بے اعتدالی ہو جائے اور ہماری پکڑ میں کوئی حکم نازل نہ ہو جائے ۔( صحیح مسلم 5187)
میری کس قدر بڑی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے مجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔ دین کی سمجھ دی اور ایک مسلمان گھرانے کا حصہ بنایا، جہاں پر میری ضروریات کا خیال رکھنے والوں اور میری خواھشات کا احترام کرنے والوں کا پورا حلقہ میرے گرد موجود ہے۔ الحمدللہ کثیرا۔۔۔ اس وزارت پر تو سجدہ شکر واجب ہے۔