افشاں نوید
پاکستان
اسوہ ابراہیمیؑ۔۔۔۔کہاں ہے جنریشن گیپ؟
کل کینیڈا کی اکنا سسٹرز کے ساتھ آن لائن اسوہ ابراھیمیؑ پر بات کرنے کا موقع ملا۔ پروگرام کا موضوع یہ تھا کہ اولاد اس دنیا میں ہماری قیمتی متاع ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ بڑھاپے تک اولاد کی طلب رکھتے ہیں رب ھب لی من الصالحین
کیوں؟ اپنی جائیداد کا وارث بنانے کے لیے نہیں بلکہ صالحین کا امام بنانے کے لیے۔ 80 برس میں بیٹے کا پیدا ہونا۔کتنا فرق تھا عمر میں مگر حضرت اسماعیلؑ کا خواب سن کر سر جھکا دینا,کوئی دلیل طلب کرنا,نہ کسی ہچکچاہٹ کا اظہار کرنا۔”ستجدنی ان شاءاللہ من الصابرین۔۔” اس کا مطلب ہے کہ عمر کے بہت فرق کے باوجود باپ بیٹے میں کوئی جنریشن گیپ نہ تھا۔ کیسا قریب رہتا ہوگا وہ نونہال۔باپ کے آگے پیچھے اور باپ لخت جگر کے آگے پیچھے۔
وہ باپ سے یوں جڑے ہوئے تھے کہ ان کی آنکھوں کے اشارے بھی سمجھتے تھے اور دل کی زبان بھی۔۔ کسی بڑے مشن کے لیے ایسی ہی بائنڈنگ مطلوب ہوتی ہے چاہے باپ بیٹے میں ہو یا بھائی بھائی میں۔ حضرت ہاجرہؑ کا کردار کیسے صرف نظر کر دیا جائے؟ بچہ تو ناسمجھ ہے ماں کا تو ہاتھ کلیجے تک گیا ہو گا خواب سن کر۔۔۔۔کیا کہ رہے ہیں آپ؟ انھوں نے بھی کوئی عقلی دلیل مانگی,نہ بیٹے کو مزاحمت پر مائل کیا۔۔
خاندان کے کسی فرد کے گمان میں بھی نہ تھا کہ مینڈھا آجائے گا۔ تب ہی تو منہ کے بل لٹایا کہ معصوم بیٹے کی آنکھوں سے آخری پیغام کی منتقلی پر چھری کند نہ ہوجائے۔۔۔۔ حضرت اسماعیلؑ گود میں سر رکھتے ہوں گے کبھی۔۔ تو ماں نے بیٹے سے اس چلچلاتی دوپہر کا ذکر تو کیا ہوگا جب وہ پیاس سے بے چین تھے۔
“پائنچے چڑھائے میں کیسے دیوانوں کی طرح دوڑ رہی تھی۔پہاڑوں پر جاجا کے جھانکتی تھی کہ دور سے کوئی مسافر,پانی کا کوئی سراغ,کوئی پرندہ کچھ تو نظر آئے کہ جیون کی آس بندھے۔” کتنے گھنٹے چکر لگائے ھونگے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ؟؟ انھیں کیا پتا تھا کہ عرش پر ان چکروں کی گنتی لکھی جارہی ہے۔
روز حشر تک امت کے خاص وعام ان قدموں کے نشانوں کو زندہ رکھیں گے۔ کبھی تو حضرت اسماعیلؑ کے دل میں آتا کہ میری ماں نے کتنی صعوبت اٹھائی۔بواد غیر ذی زرع میں تنہا۔۔ ہمارے سماج کے بچے عموما ماؤں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور باپوں سے شاکی۔
ماں نے زندگی میں کبھی عسرت کے دن دیکھے ہوتے ہیں تو وہ بار بار بچوں سے تذکرہ کرتی ہے۔ یہ پیغمبری گھرانہ ہے یہاں معیار زندگی یہ نہیں کہ ۔۔
شوہر یا ویر یونانی ساحلوں پر کشتیوں میں اس لیے ڈوب جاتے ہیں کہ بالخصوص ہم عورتوں کو بہتر معیار زندگی کی طلب ہے۔عمد گھر,بہترین گاڑی ,جدی ملبوسات۔۔ بہتر معیار زندگی کی طلب میں خاندان ٹوٹ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی مادی دوڑ کا حصہ بن چکے ہیں کہ اہل خانہ بھی ایک پیج پر نہیں۔
اسوہ ابراہیمیؑ میں ہم پورے خاندان کو ایک پیج پر دیکھتے ہیں۔ سعی و جہد اس مادی دنیا کے پیمانوں سے بلند تر۔ آج ہمارے مسائل میں بڑا مسئلہ جنریشن گیپ ہے۔
بچے سنتے ہی نہیں ہیں۔ قرب قیامت کی ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ بیٹا باپ سے دور اور دوست کے قریب ہوگا۔۔
وہ کیسے باپ بیٹا تھے,جن کی ہم آھنگی نے ایک تاریخ رقم کی۔
آج اس جنریشن گیپ کی وجہ بیٹے کے علاوہ باپ بھی ہے۔جو بچے کو بچپن سے یہ بتاتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد تمہاری خواہشوں کی تکمیل ہے۔ ہم مائیں بھی بچوں کے کانوں میں ڈالتے رہتے ہیں کہ فلاں کے باپ نے اتنا کمایا کہ بیٹے نے تعلیم لندن جاکر حاصل کی۔۔ تمہارے باپ کی قناعت پسندی نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا !! باپ اور بیٹے کے درمیان جنریشن گیپ کی وجہ کبھی مائیں بھی ہوتی ہیں۔ بیٹے خودسر کیسے ہو جاتے ہیں۔ہماری گود کے پلے بچے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ہم والدین معذرت خواھانہ رویہ رکھتے ہیں کہ فلاں کے بیٹے کی طرح تمہیں باہر نہ بھیج سکے,سیلف فنانس پر تعلیم نہ دلوا سکے۔۔
بیٹوں کی تربیت بچپن سے کیسے کرنی ہے یہ اسوہ ابراھیمیؑ ہمیں بتاتا ہے۔ ہمارا بیٹا ہی ہمارا ہم قدم نہیں تو بیٹے کب کرائے پر ملتے ہیں؟ اولاد کی عاقبت کی فکر سب سے بڑی ذمہ داری۔انھیں اللہ کی رضا کا جویا بنانا۔ حضرت ابراہیم ؑ نےصرف بت خانے میں بت توڑ کر ہی پیغام نہیں دیا کہ لا الہ الا اللہ کا کیا مطلب ہے بلکہ حضرت اسماعیل ؑ کی بے مثال تربیت سے یہ پیغام چھوڑا کہ تمہارے بعد تمہارے ایمان کی وارث تمہاری نسل ہے۔ اگر ایک بیٹا گردن چھری کے لیے پیش کرسکتا ہے تو یہ باپ پر اعتماد ہی ہے ناں۔۔۔
اپنے بیٹوں سے گیپ کو کم کیجیے۔ان سے شکایتوں کے بجائے ان میں قیادت کے اوصاف پیدا کیجے نہ کہ انھیں پیمپر کرکے تن آسان بنا دیں۔۔۔
کتنے پیار سے رب نے قرآن میں ان باپ بیٹوں کا جگہ جگہ ذکر کیا۔۔ان کے بنائے گھر کو اپنا گھر کہا۔ہمیں یہ تک بتایا کہ وہ اس گھر کو بناتے ہوئے کیا دعائیں کیا کرتے تھے۔بس رول ماڈل تو وہی ہے جس کے لیے قرآن نے کہا۔۔۔ وابراھیم الّذی وفیٰ۔۔۔ اور ان کہ اولاد میں نبوت رکھ۔ صلی اللہ علیہ وسلّم
A few lines with great lesson
Comments are closed.