Javeria Sayeed Australia
اسپتال کی ایمرجنسی بہت ہی مصروف مقام ہوتی ہے۔ مشینوں کی ٹوں ٹوں اور بیپ بیپ، عملے کی چلت پھرت۔ کسی کا معائنہ ہورپا ہے۔ کوئی مریض شور مچا رہا ہے، شعبہ نفسیات کے مریضوں کے الگ رنگ ہوتے ہیں ۔ کوئی دھاڑ رہا ہے، کوئی بھاگنے کو ہے، کوئی پولیس کی نگرانی میں بیٹھا ہے۔ ایک بیڈ کنارے نرسوں کے ساتھ سیکیورٹی کا عملہ گھیرا باندھے کھڑا ہے۔اس مصروفیت کے عالم میں ڈاکٹرز یا نرسوں کا ایک دوسرے کو پکڑ کر بھی کسی معاملے میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اسی ایمرجنسی میں ایک طرف مینٹل ہیلتھ پوڈ میں نوعمر کلینرز اور نان میڈیکل اسٹاف دائرہ بنائے باتیں کررہے تھے۔اس قدر بول رہے تھے کہ میرے لئے فوکس ہوکر ٹائپ کرنا مشکل ہورہا تھا مگر موضوع گفتگو سن کر مسکراہٹ پر قابو پایا۔
نوجوانوں کا یہ گروپ خالص آسی انگریزی اور لہجے میں اسلام کے عقیدوں اور پریکٹسز پر گفتگو کررہا تھا۔ چونکہ نوعمر لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں اس لیے گفتگو کا انداز بھی کھلا ڈھلا اور کبھی کبھی جارحانہ ہوجاتا ۔۔ جیسے ہائی اسکول کے لڑکے اور لڑکیوں میں ٹھن جاتی ہے۔ شاید ایک لڑکی مسلمان تھی۔ زور و شور سے بولنے والا سنہرے گھنگریالے بالوں والا چھوٹا سا لڑکا کبھی اعتراض کبھی تعریف کرنے لگتا۔
بالکل ان فلٹرڈ گفتگو پر ہنسی آرہی تھی۔
“ذبیحہ اور حلال کیا شے ہوتی ہے؟”
“طہارت اور وفاداری بہت ہے ۔”
“میں نے اسلام کا جتنا مطالعہ کیا ہے مجھے وہ کنزرویٹو اور بیکوررڈ
لگا ہے۔”
لڑکی صاحبہ فرماتی ہیں۔۔
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے!! کنزرویٹو کہاں سے ہوگیا ؟”
ایک لڑکا بولا ۔۔
“مجھے لگتا ہے آج کے زمانے میں پورک زیادہ مضر نہیں رہا۔”
دوسرا لڑکا حوالے پیش کرنے لگا کہ “عیسائیت میں بھی پورک کی اجازت نہیں۔”
“مجھے تو بہت سی باتیں عیسائیت سے ملتی جلتی لگیں ۔ یہاں تک کہ نبی بھی وہی ہیں ۔”
ایسے کھلے مقام پر اتنے بولڈ انداز میں بغیر کسی مرعوبیت کے ہونے والی گفتگو سن کر مجھے بہت لطف آرہا تھا۔۔
البتہ ایمرجنسی کام کی جگہ ہوتی ہے ۔۔ لطف لینے کی نہیں اس لئے کاغذات سمیٹ کر ڈیسک ٹاپ لاک کیا اور آفس میں چلی آئی۔
اب بھی عالم سرور میں مسکراہٹ آجاتی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی نوجوان نسل ۔۔ زیادہ بے فکری اور اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتی ہے۔
اب یہ معمولاتِ زندگی ھے کہ
ایک گورا نوجوان مریض آنسو بہاتے ہوئے انکشاف کرگیا کہ “میں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو شراب سمیت ہر بری عادت چھوڑنے کی کوشش کررہا ہوں”۔
رن وے پر جہاز کی سیڑھیوں کے پاس کھڑی حجاب لپیٹی گوری خاتون نے مسکرا مجھے السلام علیکم کہا۔۔
ملزم کے گرد کھڑے پولیس کے عملے میں ایک حجاب میں ملبوس مسلمان خاتون بھی شامل تھیں۔
دو سابق گورے فوجی سلام کرکے پوچھتے ہیں
“آپ کے سے ہو؟”
پھر ان میں سے ایک میرے لیے حجاب تحفے میں لانے کی اجازت مانگتا ہے ۔
تھوڑی دیر کی ہمسری میں مجھے بتایا گیا۔
“ایک مراکشی مسلمان میرا پڑوسی تھا ۔۔ اب تک ملنے والے سب سے بہترین انسانوں میں سے ایک تھا وہ۔”
کئی پیاری مثالیں ہیں۔
یہاں صرف لاسٹ جنرینشنز نہیں ہیں۔۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ کے نقش قدم پر چلنے والے بھی ملتے ہیں ۔