Skip to content

                       

رائٹر: ریشماں یاسین

 

آداب فرزندی

 

 یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی

 سکھاۓ کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

ذوالحجہ کا مہینہ نہایت ہی عظمت اور مرتبے والا مہینہ ہے اس مہینہ کا چاند نظر آتے ہی ہر دل میں اس عظیم الشان  قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جسکی مثال تاریخ انسانی میں مشکل سے ملتی ہے ، یہ مہینہ اس عظیم پیغمبر کی یادگار ہے جنکی زندگی میں ہمیں بیشمار قربانیاں ملتی ہیں ، وہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے ، جنکو خلیل اللّٰہ ( اللّٰہ کا دوست ) کہا جاتا ہے اللّٰہ تعالی نے قرآن میں متعدد مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے احوال اور اوصاف بیان فرماۓ ہیں اللّٰہ تعالی نے قرآن کریم میں انہیں “ امت “ اور امام الناس “ کے لقب سے پکارا ہے اور انہیں متعدد مرتبہ “ حنیف “ اور “ مسلم “ بھی کہا   ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچپن ہی سے قلب سلیم عطا کیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہوں ابتداءً ہی سے بت پرستی کی مخالفت کی آپ اللّٰہ کے وہ برگزیدہ نبی ہیں جنہوں نے اللّٰہ کی محبت میں ایسے مصائب جھیلے کہ اللّٰہ نے آپ کو خلقت کا بلند ترین مقام نصیب فرمایا اور قرآن میں متعدد بار  آپ کی تعریف فرمائی اور ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم  کو حکم دیا کہ آپ ملت ابراہیمی کی اتباع کرے ۔ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اللّٰہ کے حکم سے کعبتہ اللّٰہ کی تعمیر فرمائ حج کا اعلان کیا اور حج جیسی مقدس عبادت کی تعلیم دی ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی  بہت آزمائشوں اور امتحانوں سے بھری ہوئ تھی ،آزمائش،امتحان ،قربانیاں  انکی اپنی  جان سے لے کر انکی اولاد تک تھی مگر وہ  ہر امتحان میں  کامیاب بھی ہوۓ اور اپنے رب سے اپنی  سچی محبت کا ثبوت بھی  پیش کیا ،

دیکھا جاۓ تو انسان کو دنیا میں  دو چیزیں بہت عزیز ہوتی ہیں  ایک اسکی  اپنی جان اور دوسری اسکی اولاد ،حضرت ابراہیم علیہ السلام  پر جان کی آزمائش کا وقت آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جان کی بھی  پرواہ نہیں کی بلکہ اللّٰہ کی رضا میں راضی ہوۓ،جب نمرود بادشاہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان  مناظرہ ہوا تو مناظرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جوابات پر غور کرنے کے بجاۓ یہ  شاہی فرمان جاری کیا کہ اسکو جلا ڈالوں اور اپنے 

  معبودوں کی مدد کرو،اسی  نمرود  نے خدائ کا دعویٰ کیا تھا اس نے ہی  آگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈالا تھا وہ اور اسکے  ساتھی  بہت خوش  تھے کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنے ولا آج اس آگ کی نظر ہو گیا ( نعوذ باللّہ )اور اب ہمارے بتوں کی مخالفت کرنے والا  کوئ نہیں ہے ، علامہ اقبال کے شعر نے اس واقعہ  کی کیا خوب عکس بندی کی ہے 

        بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق 

         عقل ہے محو تماشاۓ لبِ بام ابھی 

عقل ابھی دیکھ رہی تھی اور عشق نے آگ میں چھلانگ لگادی وہ عشق کوئ عام عشق نہ تھا بلکہ یہ وہ عشق تھا جو ایک بندے کا اپنے رب سے  اور پھر اسی رب نے آگ کو حکم دیا

 اے! آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی( اور آرام کی چیز )  ہوجا ( سورہ الا نبیاء # 69 ) 

اللّٰہ تعالی کے حکم سے وہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی امتحانوں اور آزمائشوں سے پُر ہے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں پورے اُترے تو پھر بیوی بچے  کی طرف سے آزمائش آئ ،حکم رب  ملا کہ وہ حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جنگل میں چھوڑ آئیں چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت حاجرہ اور اپنے ننھے بیٹے حضرت اسماعیل کو سر زمین مکہ جوکہ ایک تپتا صحرا تھا  جہاں نہ آدم نہ  آدم ذاد اور نہ ہی پانی پھر بھی وہ اپنے گھر والوں کو مکہ مکرمہ کےسسنسان اور  چیٹل میدان میں  چھوڑ آئیں جب حضرت حاجرہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے  پوچھا یہ سب کس کے حکم سے ہے فرمایا الل٘ہ کا حکم تو اس فرمانبردار بیوی کا جواب تھا ہم اپنے رب کی رضا میں راضی ہیں اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے الحمدللّٰہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  اس آزمائش میں بھی پورے اُترے ،ابھی ایک امتحان ختم ہوا تھا کہ دوسرا امتحان شروع ہو گیا یہ امتحان  اولاد کی طرف سے آیا اور اولاد بھی وہ جو بہت دعاؤں کے بعد ملی ، پھر جب وہ بچہ بڑا ہوا اور بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے  کے لائق ہوا تو  حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے لاڈلے بیٹے کو اللّٰہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں  چوں کہ انبیاء کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے  جب  صبح ہوئ تو  حضرت اسماعیل کو اپنے خواب کے بارے میں بتایا حضرت ابراہیم بطور امتحان بیٹے سے پوچھ رہے ہیں کہ تمہاری اسکے بارے میں کیا راۓ ہے؟قرآن کریم نے اس واقعے کو اس انداز سے بیان فرمایا 

   “ پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے بھرنے لگا کہا اے بیٹے ! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا راۓ ہے ، کہا اے ابا جان  ! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے ، آپ مجھے انشاء اللّٰہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے “ ( سورہ الصافات # 102) 

یہ امتحان کس قدر سخت تھا کہ اتنی دعاؤں سے مانگے ہوۓ بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تھا  جب وہ قوت بازو بنکر ماں باپ کا سہارا ثابت ہوتا ، مگر اللّٰہ تعالی کی رضا کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاریخ انسانی کا وہ عظیم الشان  کارنامہ انجام دیا جسکا مشاہدہ نہ اس سے پہلے کبھی زمین و آسمان نے کیا، اور نہ اسکے بعد کریں گے ،ہم یہ دیکھتے ہے کہ  قربانی کرنے کا حکم اللّٰہ تعالی   نے براہ راست کسی فرشتے کے زریعے سے نہیں بھیجا تھا بلکہ   خواب میں دکھایا گیا تھا،خواب میں  دکھانے کی کیا  حکمت تھی؟ حکمت یہی تھی  کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو اور ان میں اطاعت خداوندی کا جذبہ اور کس حد تک ہے یہ بات بھی کھل کر سامنے آجاۓ اور انکے حوصلے کو بھی پرکھنا اور جانچنا مقصود تھا کہ اگر   وہ اطاعت حکم خداوندی کرتے ہے تواجر  ثواب کے مستحق ہونگے یہ بات بھی سمجھنا باپ اور بیٹے کی محبت کہیں درمیان میں نہ آجاۓ اسلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا تھا یہاں یہ بات قابل دید ہے کہ   حضرت ابراہیم نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بجاۓ اللّٰہ رَب العزت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اس آزمائش میں سو فیصد کامیاب ہوۓ ، اس واقعے سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بھی بے مثال جذبہ جان نثاری کی شہادت ملتی ہے، اسکے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی میں ہی میں اللّٰہ نے انہیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا ، حضرت ابراہیم نے انکے سامنے اللّٰہ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا بلکہ ایک خواب کا تزکرہ کیا تھا لیکن حضرت اسماعیل سمجھ گئے تھے کہ انبیاء علیہ السلام کا خواب وحی ہوتا ہے اور یہ خواب بھی درحقیقت حکم الہی کی ہی ایک شکل ہے چنانچہ انہوں نے جواب میں خواب کے بجاۓ حکم الہی کا ذکر  کیا اور اپنے والد کہ یہ کہ کر یقین دلایا “ یٰاَاࣿبَتِ افࣿعَلࣿ مَا تُوࣿمَرُ سَتَجِدُ نِی انࣿ شَاءَ اَللّہُ مِنَ الصࣿبِرِیࣿنَ “ اے ! ابا جان ! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے ،آپ مجھے انشاء اللّٰہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے ( سورہ الصافات # 102) 

   حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ادب واحترام اور توکل اللّٰہ  کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے ایک تو انشاء اللّٰہ کہ کر معاملہ اللّٰہ کے حوالے کر دیا آپ یہ بھی جملہ فرما سکتے تھے” آپ انشاء اللّٰہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے “  لیکن آپ نے فرمایا “ انشاء اللّٰہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے “ جس سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر و ضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوۓ ہیں انشاء اللّّہ میں بھی اس میں شامل ہو جاؤں گا اس طرح آپ نے اس جملہ میں فخر وتکبر ،خود پسندی کے زرا سے شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہائ درجے کی انکساری کا اظہار فرمایا ، کیا جزبہ قربانی کہ جو اللّٰہ نے حکم فرمایا اور اس حکم کی تعمیل( خلیل اور ذبیح)  حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنا اپنا حق ادا کر دیا ،قرآن نے بھی اعلان کر دیا

“ قَدࣿ صَدَّقࣿتَ الْرُّوࣿیَا انَّا کَذٰلِکَ نَجࣿزِی الُمحࣿسِنِیࣿنَ “ ( سورہ الصفت # 105)

( تم نے خواب سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں ) 

یعنی اللّٰہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اس میں تم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں  پورے کامیاب رہے اور یہ قربانی کی ادا اللّٰہ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لئے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنا دیا جسے اُمت مسلمہ ہر سال عید الاضحی کے نام سے مناتی ہے اس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اللّٰہ تعالی کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی  قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اگر اللّٰہ کا حکم ہمارے سامنے آۓ تو کیا ہم اسی طرح اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس طرح کی قربانی پیش کرتے ہیں ؟ قربانی محض ایک رسم نہیں کہ جانور خریدا اور ذبح کر دیا یہ عبادت ہے اس میں ایک عظیم سبق ہے جسے ہم بھول چکے ہیں اور یہ سبق بھولنے کاہی  نتیجہ ہےکہ آج ہم دنیا میں عظیم قوت ہوتے ہوۓ بھی ایک سوالیہ نشان بن گیۓ ہیں ۔

آج ہمارے پاس کونسی چیز نہیں ؟ افرادی قوت بھی موجود ہے اور  وسائل بھی میسر ہیں  دولت کی بھی کمی نہیں اور ارباب فہم و دانش بھی موجود ہیں پھر ہم کیوں سرگرداں ہیں ؟ ہمیں اپنا راستہ اور منزل کیوں دکھائ نہیں دیتی ؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اللّٰہ تعالی کے دروازے پر سر جھکا اور دین و ملت کی خاطر سب کچھ قربان کردینے کی ادا بنا دی ہے ، آج بھی ہم اطاعت خداوندی اور ایثار و قربانی کا راستہ اختیار کر لیں تو اللّٰہ تعالی کی نصرت آگے بڑھ کر ہاتھ تھامے گی ،سنت ابراہیمی سے یہ تقاضا کرتی ہے ہم اپنے انفرادی و اجتماعی طرز زندگی پر نظر ثانی کریں، اپنی خواہشات اور جھوٹے نفسانی تقاضوں کی بجاۓ اللّٰہ تعالی کی رضا اور ملت کے اجتماعی مفاد کو اپنے فیصلوں کا معیار بنائیں اور دین اسلام اور ملت اسلامیہ کی سربلندی کی خاطر کسی بھی قربانی گریز نہ کریں اللّٰہ تعالی ہمیں سنت ابراہیم کی عظیم سنّت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی توفیق فرماۓ آمین  جس طرح  حضرت  اسمعیٰل علیہ السلام  نے اللّٰہ کی محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اس خالق حقیقی کی محبت میں ہمہ وقت اسکے احکام کی اطاعت کے لئے تیار رہے 

 “ اسلام جب بھی چمکتا ہیں تو  قربانیوں سے چمکا ہے ، اور آج بھی قربانیوں ہی سے چمکے گا اسلام  کے لئے قربانیاں ہوں تو یہ دشمنوں کے گھیرے میں بھی چمکتا ہے اور جب قربانیاں نہ ہو تو باد شاہت کو بھی مٹا دیتا ہے  “ اللّٰہ تعا لی پوری  امت مسلمہ میں جزبہ ایثار و قربانی پیدا فرماۓاور اسکے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا  فرماۓ  آمین