شازیہ راشد
ایجیکس
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت وشان کے پیشِ نظر قرآنِ کریم میں آپ کے واقعات مختلف اسلوب کے ساتھ جگہ جگہ بیان کیے گئے ہیں اللہ تعالی’ نے ابراہیم علیہ السلام کو شروع ہی سےحق کی بصیرت اور رشد وہدایت عطا فرمائی تھی۔ آپ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بُت نہ تو سُن سکتے ہیں ،نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نرم دل ،بُردبار اور یکسو تھے آپ فطری طور پر حقائق کی جستجو اور طلب کا ذوق وشوق رکھتے تھے۔ہر شے کی حقیقت تک پہنچنے کی سعی کرتے آپ کی زندگی کا حقیقی مقصد اللہ سبحانہ وتعالی’ کی واحدانیت و الوہیت اور قدرتِ کاملہ کے متعلق علم الیقین کے بعد حق الیقین حاصل کرنا تھا۔
جب والد کو دعوتِ اسلام دی :حق وصداقت کے پیغام کی ابتداء اپنے گھر سے کی۔ والد کو معرفتِ الہی کا راستہ دکھایا گمراہی و باطل پرستی سے منع کیا مگر افسوس ابراہیم علیہ السلام کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا بلاآخر والد کی سختی اور تحقیر و تذلیل کے جواب میں نرمی و ملائمت اور اخلاقیات کو ترجیح دی اور اللہ کے دن کی خاطر والد سے جدا ہوگئے۔
اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دی : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو حق کی دعوت دی انہیں بُت پرستی اور کواکب پرستی کی حقیقت سمجھائی ،باطل معبودوں کی پرستش سے منع کیا اور باخبر کیا کہ یہ تمہیں کوئی نفع نہ دیں گے۔راست گوئی سے کام لے کر صراطِ مستقیم کا راستہ دکھایا مگر ظالم قوم نے حق قبول نہ کیا اور آپ کے دشمن ہوگئےمگر ابراہیم علیہ السلام بھی باطل قوتوں کے سامنے ڈٹے رھے۔
نمرود بادشاہ کو دعوتِ اسلام : سرکش اور متکبر مشرک بادشاہ جو اپنی رعایا سے اپنے آپ کو رب اور مالک کہلواتا تھا دیوی ،دیوتاؤں اوربُتوں کی پرستش کرتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسے بھی کائنات کے خالق ایک اللہ کی عبادت کی دعوت و تبلیغ کی مگر نمرود نے صاف انکار کر دیا ابراہیم علیہ السلام کو مجرم قرار دے دیا اور دہکتی آگ میں جلانے کی سخت ترین سزا تجویز کر دی۔
لیکن ابراہیم علیہ السلام دینِ حق کے حنیف فرستادہ تھے دماغ وقلب میں اللہ واحد کا یقین لیے ہوئے تھے نمرود کے آگے سینہ تان کر ڈٹ گئے تھے۔ یہ اللہ تعالی’ کی روشن دلیل تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صورت میں ظاہر فرمائی کہ:
*بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ھے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی*
حکمِ الہی کی تعمیل کرتی ہوئی دہکتی آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق سلامتی کے ساتھ سرد پڑگئ۔
حضرت ہاجرہ اور لختِ جگر کی جدائی : حکمِ باری تعالی’ ہوا کہ اے ابراہیم اپنی نیک وفاشعار بیوی اور نومولود بچے کو مکٌے کی ویران وادیوں میں چھوڑ آؤ۔ جس ربِ کائنات کی عقیدت و محبت میں تمام رشتے دار یہاں تک کہ باپ جیسی ہستی سے بھی جدا ہوئے تو اس حکم کی تعمیل کیسے نہ کرتے یہ ایمان کا کرشمہ ہی تو تھا جو مکے کی کالی سیاہ ،تاریک وادی میں شیرخوار لختِ جگر اور پاکباز صالحہ زوجہ کو تنہا چھوڑ کر چل دیئے ۔
اگرچہ اللہ تعالی’ عالم الغیب ھے ،دلوں کے بھیدوں سے واقف ھے ، ماضی ،حال اورمستقبل کو خوب جاننے والا ھے مگر پھر بھی اللہ نے اپنے محبوب پیغمبروں کے لیے امتحان و آزمائش رکھی ھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی سخت آزمائشوں کی منزلوں سے گزرنا پڑا ،بارگاہِ الہی کی جانب سے ایک اور کٹھن امتحان حکمِ ربٌی ہوتا ھے کہ اے ابراہیم! تُو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کردے۔ ابراہیم تسلیم ورضا کے پیکر بن کر تیار ہوگئے۔
یہی وہ قربانی تھی جو اللہ تعالی’ کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہوئی کہ یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے ملتِ ابراہیمی کا شعار بن گئ جسے آج بھی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کوتمام دنیائے اسلام میں پوری عقیدت واحترام سے منایا جاتا ھے۔ قربانی تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربٌانی کا عملی مظاہرہ ھے یہ قربِ الہی اور اظہارِ بندگی کا ذریعہ ھے اور یہی ہمارے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایثار و قربانی ،تقوی’ وایمان کا بہترین اعلی’ معیار ھےکہ:
*آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ھے اندازِ گلستاں پیدا*
We can’t for get bibi Hajra’s effort who was running between Safa send Marwa mountain s for the water of her son that is called zam zam now and Saee is the part of Haj now+ hazrat Ismail ‘s obedient ness, who accepted fathers order from Allah and father accepted Allah’s order.Now Qurbani is the part of Haj
Comments are closed.